فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کی پہلی اور آخری دفعہ گجرات آمد


مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کے صاحبزادے جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال اپنے روشن خیال نظریات، بے باک انداز گفتگو اور تحقیقی اور تعمیری افکار کی بدولت علمی و فکری دنیا میں بہت مقبول تھے۔ ان کی آپ بیتی ”اپنا گریبان چاک“ چھپی تو ان کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا۔ یونیورسٹی آف گجرات کے اس وقت کے علم دوست وائس چانسلر ڈاکٹر نظام الدین بھی ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطالعے، افکار اور جراتمندانہ اظہار سے بہت متاثر تھے اور آرزومند تھے کہ جامعہ گجرات کے اساتذہ و طالبعلموں کو ان سے مکالمے کا موقع ملنا چاہیے۔

ان کا پختہ یقین تھا کہ جامعات کو تخلیقی اور تجزیاتی قوتوں اور مکالموں اور مباحثوں کی سرپرستی و آبیاری کرنی چاہیے۔ ان کے دور میں جامعہ گجرات تدریس و تعلیم کے روایتی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اس درس گاہ کو دانش گاہ بنانے کے لیے آزادئی فکر و اظہار کی علمبردار تھی اور قومی دانشوروں کی آمد و شرکت سے مذاکر ے، اور سیمینارز دانش گاہ گجرات کی شناخت تھے۔ اسی لیے ڈاکٹر نظام الدین نے اپنے لاھوری دوستوں کے توسط سے ایک دو دفعہ ڈاکٹر جاوید اقبال کو جامعہ گجرات آنے کی دعوت بھی دی تھی لیکن بات نہ بنی، جاوید اقبال کے گجرات نہ آنے پر حیرت ہوتی ہے کہ گجرات کے مختلف ادبی و علمی حلقوں نے انہیں کئی بار مدعو کیا لیکن وہ سب کو ہمیشہ ٹالتے ہی رہے۔

ایک روز میں اور پروفیسر سید شبیر حسین شاہ مرحوم وائس چانسلر آفس میں بیٹھے ہوئے تھے اور حسب معمول مختلف موضوعات پر گفتگو ہو رہی تھی کہ میں نے کسی بات کے لیے ڈاکٹر جاوید اقبال کی خودنوشت کا حوالہ دیا تو ایسے جیسے ڈاکٹر نظام صاحب کی کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ فوراً مجھے کہنے لگے شیخ صاحب پتہ تو تب چلے جب آپ جسٹس جاوید اقبال کو یونیورسٹی آف گجرات لے کر آئیں اور براہ راست ان سے ان مشکل موضوعات پر بات ہو سکے۔

میں ان دنوں جامعہ کی ایونٹ مینجمنٹ کمیٹی کا انچارج بھی تھا اس لیے وہاں موجود پروفیسر سید شبیر حسین شاہ نے ڈاکٹر نظام الدین کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ شیخ صاحب، نومبر آرہا ہے علامہ اقبال پر کوئی تقریب کریں اور جسٹس صاحب کو بھی لے کر آئیں۔ ڈاکٹر نظام الدین جس محبت سے اصرار کر رہے تھے، اسے دیکھتے ہوئے میں نے اس چیلنج کو قبول کیا۔ وی سی صاحب نے پھر بات دہرائی ڈاکٹر جاوید اقبال گجرات یونیورسٹی آئیں گے تو آپ کو مانیں گے۔

میں مسکرا دیا۔ خیر میں نے اسی روز ذاتی تعلقات کی بنا پر جسٹس جاوید اقبال سے رابطہ کیا اور لاہور آ کر ماہنامہ ”گجرات ٹائمز“ کے لیے ان کا انٹرویو لینے کا وقت لیا۔ گجرات کے سینئر صحافی و مدیر اور کالم نگار برادرم بشارت لودھی کے موقر میگزین ”گجرات ٹائمز“ سے میں بھی بطور ایسوسی ایٹ ایڈیٹر وابستہ تھا اور اس میگزین کے لیے میں نے بہت اہم شخصیات کے انٹرویوز کیے تھے۔ میں طے شدہ دن اور وقت پر ان کے گھر لاھور پہنچا، وہ بہت تپاک سے ملے۔

ہم نے گفتگو شروع کی جو لگ بھگ اڑھائی تین گھنٹے جاری رہی۔ انٹرویو بہت اچھا رہا ڈاکٹر صاحب بھی گفتگو سے خوش نظر آئے۔ لیکن اصل مزہ بعد از انٹرویو چائے کی نششت پرغیر رسمی، ناقدانہ اور روشن فکر سوال و جواب تھے۔ میر زبیر اور پرویز بوٹا انٹرویو ریکارڈنگ کے لیے میرے ساتھ تھے۔ چائے کی چسکیوں میں غیر رسمی بات چیت نے ماحول کو دوستانہ بنا دیا تو میں نے ان کے خوشگوار موڈ کو بھانپتے ہوئے فوری انہیں گجرات یونیورسٹی آنے کی دعوت دی تو انہوں نے نوے سال کی عمر میں سفری صعوبتوں کا عذر تراش کر ہمیشہ کی طرح ”نہ“ کر دی اور کہا اب اتنا سفر ممکن نہیں۔

میں نے پھر دہرایا تو جواب وہی ممکن نہیں ہے۔ لاہور میں کوئی سیشن رکھ لیں تو شرکت ممکن ہو گی۔ ان کی گفتگو میں گجرات کوئی پسماندہ سا علاقہ تھا جہاں جانا بہت مشکل بات تھی۔ ان کے انکار کے باوجود میں ہمت ہارنے والا کہاں تھا اور پھر مجھے ڈاکٹر نظام صاحب کا چیلنج بھی یاد تھا۔ میں نے کہا حضور علامہ اقبال سے ہم گجراتیوں کی محبت تو بہت پرانی اور والہانہ رہی ہے۔ ہم نے محبت ہی نہیں کی اقبال کو بہت سے رشتے اور تعلق بھی بخشے ہیں۔

اقبال کے دادا شیخ رفیق کی دوسری شادی 1830 ءکے لگ بھگ جلالپورجٹاں کے کشمیری گھرانے میں ہی ہوئی تھی۔ اقبال کے والد ماجد شیخ نور محمد انہی کے بطن سے تھے۔ اقبال ابھی نویں جماعت کے طالبعلم تھے کہ ان کے روشن مستقبل کے کوئی آثار ابھی نمایاں نہیں تھے کہ گجرات کے اس وقت کے سرجن ڈاکٹر شیخ عطا محمد جو حکومت کی طرف سے خان بہادر کے خطاب یافتہ تھے لیکن صوفیانہ مزاج کے حامل تھے اور انہی دنوں ترکی سے واپس آ کر پنجاب میں جنرل ڈیوٹی پر تھے انہیں شیخ نور محمد سے تعلق ہوا تو اپنی بیٹی کریم بی بی کا رشتہ اقبال کو دے دیا۔

پھر اقبال انٹرنس کا امتحان دینے گجرات آئے تو بھی ہم نے شفقت اور اعزاز سے نوازا۔ اقبال امتحان دے کر گئے تو عین بارات والے دن جب وہ دلہا بنے گجرات روانہ ہونے کی تیاری کر رہے تھے تو اقبال کے دوست محمد ذکی دوڑتے ہوئے آئے اور ٹیلیگرام اقبال کو تھما دیا یہ تار ان کے ہونے والے سسر نے بھیجا تھا جس میں امتحان پاس کرنے کی مبارکباد تھی۔ یعنی اقبال کی کامیابیوں کے آغاز پر پہلی مبارک بھی گجرات سے ہی ملی۔ ہم نے انہیں میٹرک کی سند کے ساتھ رشتہ بھی دیا۔

4 مئی کو اقبال بارات لے کر گجرات آئے اور کریم بی بی سے ان کا نکاح دربار شاہ دولہ کے خطیب اور پیش امام حافظ غلام محمد نے پڑھایا۔ اقبال کو اولاد کی نعمت بھی گجرات ہی نے دی۔ ایک بیٹی معراج بیگم اور اقبال کے خلف اکبر آفتاب اقبال نے کریم بی بی سے ہی جنم لیا۔ کون سی خوشی ہے جو ہم نے اقبال کو نہیں دی۔ اقبالنامہ بھی مختار مسعود کے والد عطامحمد نے ہی لکھا۔ میں نے ماحول کو جذباتی بنایا اور کہا آپ ہمیشہ آفتاب اقبال کو بھائی جان کہتے ہیں آپ کا نام بھی آپ کے دادا نے ایک صوفی بزرگ کی بشارت پر آفتاب کے بعد قمرالسلام تجویز کیا تھا لیکن اقبال نے جاوید اقبال رکھا۔ گجرات نے اقبال پر ہمیشہ محبت نچھاور کی۔ گجرات کی محفلوں اور تعلقداریوں کو یاد رکھتے ہوئے ہی اقبال نے یہ شعر کہے تھے

کام بلبل نے کیا ہے مانی و بہزاد کا
برگ گل پر اس نے فوٹو لے لیا صیاد کا
ہو گیا اقبالؔ قیدی محفل گجرات کا
کام کیا اخلاق کرتے ہیں مگر صیاد کا
میں نے شعر سنائے تو انہوں نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ مگر میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ

یہ الگ بات ہے کہ لاھور جانے کے بعد اقبال کو اپنی زوجہ سے اختلاف رہنے لگا تھا۔ گجرات نے اس خاندان کو آفتاب اقبال جیسا فرزند دیا۔ لیکن نہ جانے کیوں اقبال کا گھرانہ ابھی بھی ہم گجراتیوں سے خار رکھتا ہے۔ ایسا کیوں؟ فوراً بولے نہیں، بالکل نہیں۔ تھوڑی سی بات چیت کے بعد انہوں نے کہا آپ نے جذباتی بلیک میلنگ کرلی ہے۔ چلیں میں ضرور آوں گا، ضرور گجرات آوں گا۔ ۔ ہم نے وہیں بیٹھ کر بیاد اقبال قومی سیمینار بعنوان ”ریاست و حکومت: علامہ اقبال اور عصری مسائل“ بتاریخ 15 نومبر 2011 ء طے کیا۔

میں نے واپس آ کر ڈاکٹر نظام صاحب کو ڈاکٹر جاوید اقبال کی آمد کی اطلاع دی تو ایک دانشور کے چہرے پر جو خوشی تھی وہ ناقابل بیان ہے۔ انہوں نے فوری مجھے سیمینار کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے شفقت و اعتماد سے نوازا۔ اور ہدایات دیں کہ کوئی کسر اٹھا نہیں۔ سیمینار کے آخری لمحے تک میں ڈاکٹر صاحب سے رابطے میں رہا۔ سیمینار کی صبح ڈاکٹر جاوید اقبال میاں صلاح الدین المعروف میاں صلو کے صاحبزادے کے ہمراہ گجرات پہنچے۔

ان کے گجرات پہنچنے کے بعد ہمیں بیگم ناصرہ جاوید اقبال کی کال آگئی اور ان کی جانب سے مکمل ہدایات ملتی رہیں کون سی کرسی پر بٹھانا ہے۔ ان کے ہمراہ گدی آئی تھی یہ کرسی پر کیسے رکھنے ہے۔ چائے کتنی اور کیسی دینی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یقین جانیں میں ان کی بیگم کی کیئر سے بہت متاثر ہوا۔ پھر سیمینار کے اختتام پر جب ہم نے کھانے پر بہت اصرار کیا تو کہنے لگے کئی بار چائے پی لی ہے۔ کھانا گھر جا کر ناصرہ کے ساتھ کھاوں گا وہ انتظار کر رہی ہے۔

کیا محبت تھی ان کے اظہار میں۔ رشک کرنے والا رشتہ تھا۔ ۔ اس سیمینار میں ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی ڈاکٹر محمد سہیل عمر، لمز سے ڈاکٹر جاوید اکرم، دانشور قلمکار خورشید ندیم، ڈاکٹر طاہر حمید تنولی، اور برادرم محمد عمار خاں ناصر نے شرکت کی۔ ڈاکٹر فتح محمد ملک بوجوہ شریک نہ ہو سکے لیکن انہوں نے اپنا مقالہ بھیجا۔ اس سیمینار کے تمام مقالے بعد ازاں میں نے مرتب کیے اور کتابی صورت میں شائع ہوئی۔ ملک بھر میں اس سیمینار کے چرچے رہے۔

بہت فکر انگیز باتیں، جن کے اظہار کے لیے کسی جامعہ کو ڈاکٹر نظام الدین جیسے فکری دولت سے مالا مال وائس چانسلر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال میری ذاتی درخواست اور یونیورسٹی کی دعوت پر پہلی اور آخری بار گجرات آئے تھے انہوں نے اپنے خطاب کے شروع میں حیرانی کا اظہار کیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے یونیورسٹی تو صرف پنجاب ہی ہے لیکن گجرات یونیورسٹی دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا ہے اس کی علمی فضا اور فکری ماحول قابل تحسین اور لائق رشک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments