وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ق) کے رہنما طارق بشیر چیمہ کا سخت بیان


حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر بر ائے ہائوسنگ و تعمیرات طارق بشیر چیمہ نے بدھ کو وزیر اعظم عمرا ن خان سے ملاقات میں کھل کر مسلم لیگ کے تحفظات سے آگاہ کر دیا۔ طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ وزیراعظم نےمجھ سے کہا ہے کہ کیسز کس نے کھلوائے، 24 گھنٹوں میں بتاؤں گا۔ معاملے کی چھان بین کروا کر آپ سے دوبارہ رابطہ کروں گا۔

طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ اب بتانا ہوگا کہ اگر ہم سے فضل الرحمٰن والے ایشو پر غلطی ہوئی ہے تو کہاں ہوئی ہے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور ایشو ہے تو وہ ہمارے سامنے رکھا جائے۔ طارق بشیر چیمہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم وہ پہلی پارٹی ہیں جو گرفتاری سے پہلے ہی عدالت میں گئے ہیں۔ اگر وزیراعظم ہم سے تنگ آ چکے ہیں تو بتا دیں، ہم عزت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔

عمران خان نے کہا سیاست میں کبھی چھپ کر وار نہیں کیا۔ چیئرمین نیب نے معلوم نہیں کس کو خوش کرنے کے لئے 21 سال پرانا بند کیس کھولا ہے لیکن یہ اس کو بتانا ہوگا۔ ہر آنے والا حکمراں احتساب کا نعرہ لگا کر آتا ہے لیکن اس کے بعد احتساب ہی کہیں نظر نہیں آتا۔ چیئرمین نیب کا ایک حملہ ناکام ہوچکا ہے۔ اگر وزیراعظم ہم سے تنگ آچکے ہیں تو عزت سے بتا دیں۔ ہم مسلم لیگ (ن) سے پینگیں نہیں بڑھا رہے۔

انہوں نے وزیراعظم سے اپنی ملاقات کے حوالے سے کہا کہ میں نے وزیراعظم سے ملاقات میں کچھ سوالات پوچھنے کی جسارت کی جس میں نیب کی حوالے سے سوال بھی شامل تھا۔ انہوں نے کہا وزیراعظم نے کہا کہ ان کے علم میں ایسا معاملہ نہیں ہے۔ جس پر میں نے کہا کہ مجھے اس سے غرض نہیں کہ آپ کے علم میں ہے یا نہیں لیکن ہم آپ کے اتحادی ہیں اور آپ سے کہتے ہیں کہ آپ چیک کریں کہ چیئرمین نیب نے اتنی عجلت میں یہ حرکت کیوں کی۔ جس پر وزیراعظم نے کہا ہے کہ 24 گھنٹے میں اس حوالے سے میں معاملات دیکھ کر آپ کو آگاہ کرتا ہوں کہ کیس کے پیچھے کون ہے اور کون نہیں۔

انہوں نے کہا اس وقت ملک میں قومی سطح پر ایمرجنسی ڈیکلیئر ہوئی ہے۔ ہر کوئی کورونا کے بارے میں اقدامات میں مصروف ہے۔ ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ عمران خان کو چوہدری صاحب کو گرفتار کرنے سے کیا فائدہ یا کیا نقصان ہو سکتا ہے اور اگر عمران خان اس میں ملوث نہیں ہیں تو پھر ان کا چیئرمین نیب سے پوچھنا فرض بنتا ہے کہ وہ پوچھیں کہ کس کے کہنے پر اتنی عجلت میں کام ہونے جارہا تھا کہ ڈی جی نیب لاہور بھاگے بھاگے پھر رہے تھے۔ فائلیں اسلام آباد اور لاہور کے درمیان شٹل کاک بنی ہوئی تھیں۔ اس بات پر تو مہر ثبت ہو رہی ہے کہ پولٹیکل انجینئرنگ کے طور پر یہ کام ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیکڑوں کیسز نیب میں پڑے ہوئے ہیں، نیب میں ای بی او آئی کی 45، 45 مربع میل کی فائلیں پڑی ہوئی ہیں۔ اگر نام لینا شروع کئے تو کئی لوگ ناراض ہو جائیں گے لیکن یہاں ایک 21 سال پرانے بند کیس کو کھول دیا گیا۔ اس میں اتنی عجلت کیا تھی ؟

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن سے ہماری قیادت کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ تاہم جب مولانا فضل الرحمٰن نے دھرنا دیا تھا تو چوہدری برادران کو وزیراعظم صاحب نے ہی معاملات سنبھالنے کے لئے بھیجا تھا اور ایک موقع پر چوہدری برادران واپس لاہور آگئے تھے۔  تاہم دوبارہ وزیراعظم نے ان کو اسلام آباد جاکر بات کرنے کے لئے کہا تھا جس کا ذکر میں نے وزیراعظم سے ملاقات میں بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری قیادت سے کسی بھی قسم کی غلط بیانی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

انہوں نے اس سوال کہ ن لیگ سے پینگیں بڑھائی جارہی ہیں کے جواب میں کہا کہ میرا چیلنج ہے کہ کوئی ایک ملاقات بھی چوہدری برادران کی ن لیگ کے کسی بھی اراکین سے ثابت کردی جائے سوائے اس ایک ملاقات کے جس میں پروڈکشن آرڈر کی سہولت دینے کے حوالے سے چوہدری برادران سے خواجہ برادران نے ملاقات کی۔

طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ میں نے وزیراعظم سے کہہ دیا ہے کہ اگر ہم سے جی بھر گیا ہے ، ہماری شکلیں آپ کو اچھی نہیں لگ رہی ہیں، ہماری افادیت اور اہمیت ختم ہوچکی ہے تو ہمیں بتا دیا جائے کیونکہ شاید اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن تتر بتر ہوچکی ہے ورنہ وہ وقت بھی تھا جب اپوزیشن مستحکم تھی اور گالیاں صرف پرویز الٰہی کو پڑ رہی تھیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ عمران خان نے ہمارے علیحدہ ہونے پر کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے اپنی سیاست میں کبھی چھپ کر وار نہیں کیا۔ جو میرا سیاسی مخالف ہوتا ہے، میں اس پر وار بھی سامنے سے ہی کرتا ہوں۔ میری ق لیگ سے کوئی ناراضی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ احتساب کے حوالے سے ایک ماڈل بنالیا جائے اوریہ احتساب ہم سے شروع کر دیں۔ یہاں ہو یہ رہا ہے کہ 2 سے 3 کو گندا کر کے 70 سے 80 سیاستدانوں کو ایڈوانٹیج مہیا کردیا جاتا ہے۔ نیب کی جانب سے 7 مئی کو جاری کردہ پریس ریلیز وضاحت پر انہوں نے کہا اس پریس ریلیز میں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب میں جہاں کچھ برے تو بہت سے اچھے لوگ بھی ہیں اور اچھے لوگوں کی ہی وجہ سے 2016ء میں جب بدترین اپوزیشن تھی، نیب نے ہی ہمارے کیس کلوز کئے تھے۔ اس لئے مجھے نیب اور اس کے ادارے کے لوگوں سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ بس یہ بتایا جائے کہ چیئرمین نیب کو ایسے موقع پر کیا پریشانی لگی تھی کہ عجلت میں یہ کام کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments