سماجی دوری یا جسمانی فاصلہ؟


کورونا کے آنے کے بعد ”سماجی فاصلہ“ اختیار کرنے کی اصطلاح مسلسل سن رہے ہیں لیکن وہیں اس پر کئی سوالات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے ہیں۔ کیا ہم سماجی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہیں؟ کیا ہم نے ایک مضبوط سماج کی تشکیل کے لیے مل کر کام کیا ہے؟ کیا ہم پہلے سے ہی سماجی طور پر ایک دوسرے سے بہت دور نہیں ہیں؟ کیا کورونا کے بعد ہم نے سماجی دوری اختیار کی ہے جو پہلے ہی سے تھی یا جسمانی فاصلہ اختیار کیا ہے؟

سوشل ڈسٹینسنگ تو ہمارے جیسے معاشرے کا خاصہ رہا ہے، ہم تو سماجی طور پر پہلے ہے ہی ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ دور نہ ہوتے تو کورونا کے آنے سے پہلے اور آنے کے بعد لالچ، کرپشن ”ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی جیسی برائیاں اور جرائم اس معاشرے کا حصہ نہیں ہوتے“ اگر ہم سماجی طور پر قریب ہوتے تو پیسوں کی لالچ میں آٹے اور چینی کی ذخیرہ اندوزی کر کے ملک میں مصنوعی بحرانی کیفیت پیدا نہ کرتے۔ اگر ہم ایک دوسرے کے قریب ہوتے تو کورونا کے آتے ہی ماسک، گلوز، سینٹائزر اور اس وائرس سے بچنے کے لیے استعمال کی جانے والی اشیا کو کئی گنا مہنگا نہ فروخت کرتے۔ سماجی طور پر قریب ہوتے تو اس مہلک بیماری سے بچنے کے لیے اجتماعی سوچ اور عمل کا مظاہرہ کرتے۔ اگر ہم سماجی طور پر مضبوط ہوتے تو ایک دوسرے کا سوچتے، اس وبا کے پھوٹتے ہی ہم اپنے گھروں میں منوں بھر راشن نہ بھرتے اور دوسروں کا بھی خیال کرتے۔

کورونا کے آنے کے بعد ہم نے جو احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں وہ میرے خیال سے سماجی نہیں بلکہ فزیکل (جسمانی) دوریاں ہیں اور یہ، وہ افکار ہیں جو پہلے سے ہی اس معاشرے کا حصہ ہونی چاہیے تھیں۔ کسی دکان پر فاصلے کے ساتھ لائن میں لگ کر سامان خریدنا، ایک دوسرے سے فاصلہ برقرار رکھنا تو اچھے معاشروں کا خاصہ ہوتا ہے جو ہم مجبوری میں کر رہے ہیں جبکہ بہت سے افراد تو موجودہ خطرناک حالات میں بھی ان احتیاطی تدابیر سے کوسوں دور ہیں۔

شاپنگ سینٹرز اور بڑے مالز میں تہواروں میں جو رش ہوتا ہے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی لیکن اس وقت ہم ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کو ترجیح ہی نہیں دیتے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا حشر ہمارے سامنے ہے جہاں گنجائش سے کہیں زیادہ لوگ سوار ہوکر سفر کرتے ہیں۔ گویا ہمارے اندر برداشت اور حوصلہ، کورونا آنے سے قبل بھی ہونا چاہیے تھا نا کہ ہم مجبوری پر ان سماجی اصولوں پر عمل کریں۔ لیکن افسوس کے ساتھ ہم ان تمام تر معاشرتی خامیوں کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ مجبوراً ان تمام اصولوں پر عمل پیرا ہوکر مایوسی کا شکار ہورہے ہیں۔

میں سوچتی ہوں کہ اگر اس دور میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہ ہوتی تو بیشتر گھروں میں کیا کیا مسائل پیدا ہورہے ہوتے۔ مضبوط معاشروں میں گھر کے ماحول کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے، لیکن ہم نے گھریلو ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کبھی توجہ ہی نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ کورونا کے باعث جب ہمیں مکمل طور پر گھر والوں کے ساتھ گزارنا پڑھ رہا ہے تو گھریلو تشدد، ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کے کیسز میں روز بہ روز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

موجودہ حالات ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ اس وقت ہمیں بہتر اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے سماجی قربت کا مظاہرہ کرنا ہے اور اپنے عمل سے اس سوچ کو پروان چڑھانی ہے کہ ”ہمیں احتیاط کرنی ہے، ایک دوسرے سے ہر پبلک مقامات، دفاتر اور بازاروں میں آج بھی جسمانی فاصلہ رکھنا ہے اور آئندہ بھی کورونا سے بچاؤ کے لیے احتیاطی اصولوں پر چلنا ہے، گھر کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ورچوئل دنیا سے بھی تھوڑی دوری اختیار کرنی ہے اور اپنے پیاروں رشتوں کو وقت دینا ہے۔

کوئی بھی مہذب معاشرہ مجمعے سے نہیں بلکہ بہتر اجتماعی سوچ اور اصولوں سے بنتا ہے۔ وقت نے ہمیں موقع دیا ہے کہ آج مجبوری سے اپنائے گئے اصولوں کو ہم اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اور ایک بہتر سماج کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ سماجی قربت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جسمانی فاصلہ اختیار کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments