شخصیت پرستی کی بیماری


پاکستان میں بھی ہر گروہ اور ہر جتھے کا اپنا اپنا ہیرو ہے اور اس کو انہوں نے ایک دیوتا کی شکل دی ہوئی ہے، اس کو مقدس بنایا ہوا ہے، اس کے خلاف تنقید نہیں ہو سکتی، پارٹی کے اندر اس کے کسی بھی فیصلے پر سیر حاصل گفتگو نہیں کی جا سکتی، کسی بھی فیصلے کا تنقیدی جائزہ نہیں لیا جاسکتا، جو کچھ پارٹی سربراہ نے کہہ دیا وہ حرف آخر ہے، بالکل ہی باس اور ماتحت والا رشتہ ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ یہ پارٹیاں نہیں بلکہ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں جس میں ملازم کا کام بس حکم بجا لانا ہوتا ہے۔

اگر بلاول نے کوئی بیان دے دیا ہے چاہے وہ کتنا ہی احمقانہ کیوں نہ ہو اب یہ پارٹی رہنماؤں کا فرض ہے کہ اپنی پوری ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کا دفاع کریں اور اگر نواز شریف نے کوئی خامہ فرسائی کی ہے تو اب یہ پارٹی کے لیڈروں کا فریضہ ہے کہ اس کی حجت تلاش کریں اور اس کے لئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر دلائل لائیں، یا عمران خان نے چاہے کتنی ہی بے وقوفانہ بات کی ہے اب یہ پوری پارٹی کی ذمے داری ہے کہ اس میں سے کوئی نہ کوئی فلسفہ تلاش کر کے لوگوں کو بتایا جائے۔

یہ مزاج صرف پارٹی کے کرتا دھرتاؤں کی ہی نہیں بلکہ پارٹی کے پیروکار بھی اسی بیماری کا شکار ہیں، پارٹی لیڈر نے کتنی ہی جاہلانہ بات کیوں نہ کہہ دی ہو یہ پیروکار اس پر سر دھنیں گے، اور اس کا بلا سوچے سمجھے دفاع بھی کریں گے، اور تاویل بھی کریں گے، اور یہ طور طریقہ بلا تخصیص ہر پارٹی میں ہے۔

اگر تاریخ کا جائزہ لیں تو اس خطے میں ہمیشہ سے شخصیت پرستی ہی رہی ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ یا خطہ غیر ملکی حملہ آوروں کا نشانہ بنتا رہا ہے اور ہمیشہ کبھی نہ کبھی کسی کا غلام رہا ہے، اس وجہ سے شاید ان کی افتاد طبع ہی ایسی ہو گئی ہے، ان لوگوں کی گٹھی میں پڑ گیا ہے کہ ان کو ایک بت چاہیے جس کو وہ پوجتے رہیں، جس کے کاندھوں پر اپنی امیدوں اور خواہشات کے محل بناتے رہیں، ان کو ہر دور ہر زمانے میں ایک مسیحا کی تلاش رہی ہے جو کہ آئے جادو کی چھڑی گھمائے اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔

یعنی خود کچھ نہ کرنا پڑا، خود کوئی محنت نہ کرنی پڑے، اپنی سیہ مستیاں ویسے ہی جاری رہیں اپنی لغزشیں اپنی ضلالت ویسے ہی باقی رہے، اپنا اخلاقی وجود ویسے ہی بدبودار رہے، لیکن ان مورکھوں کو نہیں پتا کہ تبدیلی ہمیشہ نیچے سے آتی ہے، جب معاشرہ ٹھیک ہوتا ہے، جب لوگوں کی اخلاقی حالت بہتر ہوتی ہے تو ان میں سے ہی کوئی بندہ اوپر آکر قوم کی راہ متعین کر دیتا ہے، لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی معاشرے کی اخلاقی حالت تو انتہائی پتلی ہو، ہر اخلاقی قباحت موجود ہو اور ایک مسیحا آئے اور سب کچھ تبدیل کر دے۔ اب پیغمبر آنے بند ہوگئے ہیں، اپنا اخلاقی وجود درست کریں رہبر اور رہنما بھی پیدا ہو جائے گا، نہیں تو ہر کچھ عرصے کے بعد ہم لوگ ایک نئے عیار کے دام میں پھنستے رہیں گے۔ جب تک خود نہیں ٹھیک ہوں گے نجات دہندہ کے بھیس میں کوئی نہ کوئی فریبی اور مکار بے وقوف بنا کر اپنی دکانداری چمکاتا رہے گا۔

امام غزالی فرماتے ہیں ناقص العقل لوگوں میں یہ مرض عام ہے کہ وہ اشخاص کی پسند و ناپسند کے ذریعے حق کی جانچ کرتے ہیں، حالانکہ انہیں حق کو معیار بنا کر اشخاص کو جانچنے کا حکم دیا گیا تھا۔

حق میزان ہوتا ہے، شخصیت یا شخصیات میزان نہیں ہو سکتیں۔ اصل میں برصغیر و پاک ہند میں شخصیات کو میزان مان کر ان پر حق کو پرکھا جاتا ہے، شاید یہ ہماری کوئی تخلیقی کجی ہے، شاید صدیوں سے غلام رہنے کا نتیجہ ہے کہ ہماری نفسیات کا ڈھانچہ اسی طرح سے بن گیا ہے۔ واللہ العالم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments