چوہدری نثار اور مسلم لیگ (ن) میں دھڑے بندی – مکمل کالم


مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف نے گزشتہ روز کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کے دوران یہ الزام عائد کر کے باسی کڑھی میں ابال پیدا کر دیا کہ اس وقت کے ان کی جماعت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحریک انصاف کے دھرنے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا اور دھرنے کے شرکاء کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دی تھی۔ میاں جاوید لطیف کا شمار مسلم لیگ ن کے اس کیمپ میں ہوتا ہے جسے پارٹی قائد میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی مکمل آ شیر باد حاصل ہے۔

مسلم لیگ ن میں دھڑے بندی اب اوپن سیکرٹ ہے اور دوسرے کیمپ کے شرکاء پارٹی صدر شہباز شریف کے ہاتھ اور ان کے بیانیے پہ بیعت کیے ہوئے ہیں تاہم اس میں شامل وہ سینئر رہنما جنہیں اب پارٹی کے اندر چار کے ٹولے سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ کل تک نواز شریف کو ووٹ کو عزت دلانے کے لئے تھپکی دیتے تھے لیکن جیسے ہی حالات کی ستم ظریفی اور بیماری کے باعث ان کی پارٹی پہ گرفت کمزور ہوئی وہ پارٹی صدر کی مفاہمتی پالیسی کے قائل ہو کر ان کے ساتھ جا ملے۔ نواز شریف کے دور میں اس ٹولے کو کشمیری گروپ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا اور تب یہ گروپ چوہدری نثار کی مخالفت میں نواز شریف کے کان بھرنے میں پیش پیش تھا، وقت کیسے لوگوں کو بے نقاب کرتا ہے کہ آج اس ٹولے میں شامل سب ؛انقلاب پسند؛ اپنے قائد کی سیاسی بلی چڑھا کر شہباز شریف کی قیادت پہ ایمان لاتے ہوئے اسی بیانیے کے پرزور حامی ہو چکے ہیں جس کے چوہدری نثار داعی تھے۔ اس گروپ میں شامل دو رہنما تو ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پہ نواز شریف کا ساتھ دینے کی بھرپور قیمت بھی چکا چکے ہیں جبکہ ایک رہنما اپنے خلاف مقدمات کے خوف سے ہی گھبرا کر نہ صرف اس بیانیے سے توبہ تائب ہو چکے ہیں بلکہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کی طرف سے بھی ”تابعداری“ کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے ان واضح دو دھڑوں میں شامل ہونے کے علاوہ پارٹی میں کچھ رہنما وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی پالیسی پہ گامزن ہیں۔ وہ مستقبل کی پارٹی قیادت کے حوالے سے غیر یقینی کے باعث دونوں گھروں سے بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ پارٹی کی اسی گروپ بندی نے چوہدری نثار کو ایک بار پھر موضوع بحث بنا دیا ہے، اس بحث کی اصل وجہ یہ ہے کہ شہباز شریف کی سربراہی میں قائم گروپ میں شامل رہنماؤں کی اکثریت مسلم لیگ ن کے سابق رہنما چوہدری نثار کو ایک بار پھر پارٹی میں شامل کرانے کے لئے در پردہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ شہباز شریف سمیت وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت جماعت میں کوئی ایسا سینئر رہنما نہیں ہے جو اسے موجودہ بھنور سے نکالنے کے لئے پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکے۔ وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ جب تک چوہدری نثار مسلم لیگ ن کا حصہ تھے تب تک وہ اپنے خاندانی پس منظر اور دوسرے فریق کے ساتھ قریبی رابطے کے باعث پارٹی اور اس کی قیادت کے لئے معا ملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں پہنچنے دیتے تھے لیکن جیسے ہی دونوں فریقین کے درمیان یہ پل ختم ہوا، ن لیگ اور اس کی قیادت کے دوسرے فریق کے ساتھ اعتماد کا فقدان بتدریج اس نہج پہ پہنچ گیا کہ اب سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچا۔

گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ن لیگ کی طرف سے اعتماد کے اس فقدان کو دور کرنے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کیے گئے لیکن وہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئے جبکہ شہباز شریف کی بھرپور کوشش اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی ترمیم پہ ووٹ دینے کے نتیجے میں معاملات صرف سیز فائر تک پہنچے ہیں لیکن دونوں فریقین بلخصوص فریق ثانی ابھی ن لیگ پہ مکمل اعتماد کرنے پہ تیار نہیں ہے۔ چنانچہ شہباز شریف اور ان کے بیانیے کا حامی ن لیگی گروپ یہ چاہتا ہے کہ چوہدری نثار کو ایک بار پھر پارٹی میں شامل کر کے ڈور جہاں سے الجھی تھی اسے وہیں سے سلجھانے کی کوشش کی جائے، دوسری طرف نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی آشیر باد کا حامل گروپ اس فلسفے پہ یقین نہیں رکھتا کہ سب کچھ گنوانے کے بعد واپس اسی در پہ ماتھا ٹیکا جائے جہاں سے دیس نکالا ملا تھا۔ چنانچہ ایسی کوششوں کو سبو تاژ کرنے کے لئے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے کا ملبہ چوہدری نثار پہ ڈال دیا گیا ہے۔

سیاسی تاریخ پہ نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو گرانے کے لئے انقلاب اور آزادی مارچ کے شرکاء کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے آنے کی اجازت وزیر داخلہ چوہدری نثار نے نہیں دی تھی بلکہ یہ فیصلہ بطور وزیر اعظم نواز شریف نے انہی رہنماؤں کی مشاورت سے کیا تھا جو آج ان سے اور ان کے بیانیے سے کنی کترا رہے ہیں، اس فیصلے پہ تب وزیر داخلہ چوہدری نثار نے وزیر اعظم سے ناراضی کا اظہار بھی کیا تھا، چوہدری نثار کا مخالف ن لیگی گروپ پارٹی قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی سے متعلق روا رکھے گئے رویے، کلثوم نواز کی رحلت پہ نواز شریف سے تعزیت نہ کرنے اور مشکل وقت میں بھی ان کی خبر گیری نہ کرنے کے باعث کسی طور ان کی پارٹی میں واپسی نہیں چاہتا جبکہ وہ یہ مؤقف بھی رکھتے ہیں کہ اگر شہباز شریف گروپ کا مفاہمتی بیانیہ موثر ہوتا تو کم از کم ان کے خلاف نت نئے مقدمات قائم نہ کیے جا رہے ہوتے اور زیادہ نہیں تو وہ ایک سال سے قید اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو تو رہائی دلانے میں کامیاب ہو جاتے۔

شہباز شریف اور ان کا مفاہمتی گروپ کامل یقین رکھتا ہے کہ ریاستی ادارے کے ساتھ سیز فائر ہونے کے بعد سے نیب کی طرف سے کی جانے والی حالیہ تمام کارروائیوں کا کھرا وزیر اعظم ہاؤس تک جاتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ سیز فائر کی اطلاعات کے بعد سے وزیر اعظم خاصے برہم ہیں اور وہ کسی بھی ممکنہ مفاہمت کو ناکام بنانے کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں، یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کی ہدایت پہ خواجہ برادران کی چوہدری پرویز الہی کے ساتھ ملاقات کے بعد نیب نے چوہدری برادران کے بیس سال پرانے مقدمات کی فائلیں دوبارہ کھول دی ہیں، چوہدری برادران نے اپنے خلاف نیب کی اس کارروائی کا الزام براہ راست وزیر اعظم ہاؤس پہ عائد کرتے ہوئے اس کے نتائج سے بھی خبردار کر دیا ہے جس کے بعد نیب کو وضاحتیں دینا پڑی ہیں۔

حکومت کے اتحادی چوہدری برادران کے نیب پہ سیاسی انجینئرنگ کے الزامات سے یہ بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ نیب نے اپوزیشن کے جن رہنماؤں کے خلاف بھی مقدمات قائم کیے ہیں ان کا مقصد احتساب نہیں بلکہ کسی کی فرمائش پہ مخصوص مقاصد کا حصول ہے۔ دو ہزار چودہ کے دھرنے سے تحریک انصاف کی حکومت کے قیام اور اپوزیشن کے خلاف نیب کی کارروائی وں تک چوہدری برادران ان تمام رازوں کے امین ہیں جن کے آشکار ہونے کا بوجھ عمران خان کی حکومت برداشت نہیں کر سکتی اس لئے انہیں ن لیگ سے دور رکھنے کے لئے ان پہ دباؤ ڈالنے کی بجائے انہیں رام کرنا ہی حل ہے جس کے لئے کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔

چوہدری برادران فی الحال بھلے اپنے جذبات پہ قابو پا لیں لیکن نیب کے ذریعے جو دھچکہ انہیں پہنچایا گیا ہے وہ اس ؛عزت افزائی؛ کو بھولیں گے نہیں، موجودہ صورتحال میں شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی کو بہر حال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ جہاں انہوں نے دو دہائیوں سے رقیب بنے چوہدری برادران کے ساتھ دو طرفہ مخاصمت ختم کرنے کو ممکن بنایا ہے وہیں انہوں نے ریاستی ادارے کے ساتھ سیز فائر کا سنگ میل بھی طے کر لیا ہے تاہم اس مفاہمتی پالیسی کی بیل کو چوہدری نثار کے ذریعے منڈھے چڑھانے میں ایک بار پھر اپنے ہی ان کے آڑے آ گئے ہیں

(ہم سب کو خصوصی طور پر ارسال کیا گیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments