راہزن یا راہبر


مذہب اگرچہ ذاتی مگر اتنا حساس معاملہ ہے کہ بڑی آسانی سے اس خطے کی جنتا کو ورغلا کر اپنے مقاصد پورے کر لیے جاتے ہیں۔ اور یہ فارمولہ ہر مذہب کے ماننے والوں پر لاگو ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ اتنے جذباتی ہیں کہ بغیر تحقیق کیے اور حقائق کو جانے اس پر اظہار شروع کردیتے ہیں۔ اور یوں مذہب کے ٹھیکیداروں کا روزگار جاری رہتا ہے۔ ویسے تو ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں مگر میں آج ایک واقع کا ذکر کروں گا۔ گزشتہ دنوں ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ پاکستان بائبل سوسائٹی نے ایک کتاب شائع کر کے مسیحیوں کی مذہبی کتاب بائبل کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

اسی دوران اس انتظامیہ نے جو یونائٹیڈ کرسچن ہسپتال (یوسی ایچ) کے منتظمین میں بھی شامل تھے انہوں نے یو سی ایچ کو لیز پر دینے کی ڈیل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی۔ تاہم متوقع اجلاس کے ایجنڈے کی کاپی وائرل ہونے پر عوامی ردعمل آنے پر دوسری چال کو عملی جامہ پہنایا گیا اور یوں سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ مطلب کہ یو سی ایچ کی انتظامیہ نے پنجاب حکومت کے ساتھ سازباز کر کے یو سی ایچ کو کرونا وائرس کے پیش نظر قرنطینہ سنٹر کے لئے مخصوص کر لیا گیا۔

اب جس پارٹی کے ساتھ بات چیت ہوئی تھی اس کے ساتھ ٹال مٹول کے لئے بھی وقت بھی مل گیا اور شور شرابا کرنے والوں کا بھی منہ بند ہوگیا۔ گزشتہ کئی سالوں سے میں پاکستان میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اور مظالم کے بارے میں لکھ رہا ہوں اور اس بات کا الزام ہمیشہ حکمرانوں پر عائد کیا ہے کہ ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جا رہا اور امتیازی قوانین کی وجہ سے انہیں آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا اور ان کی آبادی کا زیادہ تر حصہ کچی بستیوں اور گندے نالوں کے کنارے رہنے پر مجبور ہے اور ان کے نوجوان مناسب تعلیم نہ ہونے کے باعث اچھے عہدوں پر فائز نہیں ہو سکے اور ان کے بوڑھے گلی محلوں میں کچرا جمع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، یوں یہ لوگ پستی سے نہیں نکل پاتے۔

آج میں یہ بات بڑے دکھ کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ جہاں مسیحیوں کی پستی کی وجہ ملک میں بنائے جانے والے امتیازی قوانین اور اکثریتی افراد کے رویے ہیں وہیں پاکستان میں بسنے والے مسیحی راہنماؤں خصوصاً مذہبی راہنماؤں کا بڑا کردار ہے۔ جس بے دردی کے ساتھ ان لوگوں نے انگریزوں کے جانے کے بعد مشنری اداروں کو تباہ و برباد کیا اور زمینوں کو بیچا اور حاصل ہونے والے مال میں سے ایسے بندر بانٹ کی کہ جیسے لوٹ کا مال ہو۔

ایک تو پہلے کچھ نہیں رہ گیا تھا، رہی سہی کسر کل یونائٹیڈ کرسچن ہسپتال کو ٹھکانے لگا کر پوری کردی گئی۔ یو سی ایچ کی ڈیل کرتے ہوئے اتنی باریک واردات ڈالی گئی کہ کسی کو شائبہ بھی نہ ہوا۔ اس سے قبل کراچی سے لے کر پشاور تک شاید ہی کوئی شہر رہ گیا ہو جہاں سے ان نوسر بازوں نے ہاتھ صاف نہ کیے ہوں۔ کراچی، حیدرآباد، لاہور، گوجرانوالا، سیالکوٹ، راولپنڈی، مری، ڈیرہ غازی خان، پشاور وغیرہ وغیرہ سب شہروں میں جہاں جہاں کوئی مشنری پراپرٹی ہاتھ لگی، بیچ ڈالی۔

یہ مافیا اتنا مضبوط ہے کہ سر عام دندناتا پھرتا ہے۔ کراچی کا ایک بشپ ہے جو سب کو للکارتا ہے کہ جو کر سکتے ہوئے کرلو۔ ایک طرف تو چرچ پراپرٹیز بیچ کر مال بناتے ہیں اور دوسری جانب جنتا کو خدا سے ڈرا دھمکا کر چندے حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اور ہماری جنتا اتنی بھولی ہے کہ پھر سے انہی لوگوں کے پیچھے نعرے مارتی ہے اور خود سارا دن محنت مزدوری کر کے ان کی تھیلیاں بھرتی رہتی ہے۔ جنتا کی حالت یہ ہے کہ اکثریتی آبادی کچی بستیوں میں بے سروسامانی کے عالم میں رہتی ہے او ان کے بچوں کو بہتر تعلیم، صحت یا تفریح کے مواقع میسر نہیں جبکہ دوسری طرف یہ طبقہ اچھے علاقوں میں نفیس گھروں میں رہتے، ان کی خواتین اور بچے برانڈڈ اشیا استعمال کرتے اور ان کے بچے مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔

یہ مذہبی راہنما جن سے ہدیے لیتے ہیں ان کے ساتھ ہاتھ ملانا تک گوارا نہیں کرتے۔ (یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ سب باتیں ایک مخصوص سوچ کے حامل اور نوسرباز طبقے کے لئے ہے جو مذہب کے نام پر ذاتی مفادات کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا رہا ہے ) ۔ یہ کھیل گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور جانے کب تک چلتا رہے گا۔ نہ تو دوسروں کو تعلیم دینے والے خود تو خدا کا خوف نہیں کرتے اور نہ ہی ابھی تک جنتا نے ان کے کالے کرتوت کے باوجود ان کا محاسبہ کیا گیا ہے۔

بشپ صادق ڈانیئل اور اس کے کارندوں پر چرچ پراپرٹیز بیچنے کے کتنے مقدمات درج کیے جاچکے ہیں، گوجرانوالہ کے مشہور زمانہ پادری شریف عالم انہی جرائم کی پاداش میں سزائیں کاٹنے کے باوجود باز نہیں آئے، اسی طرح پشاور ڈائیوسس کے بشپ ہمفری سرفراز پطرس پر چرچ کی زمینیں بیچنے کے کئی الزامات ہیں جبکہ سیالکوٹ، لاہور، مری، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں کتنی ایسی وارداتیں ہوچکی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ چرچ پراپرٹیز کاآخری انچ بکنے تک جاری رہے گا۔ ہم تو صرف نعرے مارنے والوں میں سے ہیں یا اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کو نکالنے کی ضرورت ہے۔ جو مسیحی روشن مستقبل دیکھنے کے خواہاں ہیں اور کلیسیا میں موجود ایسے کرداروں کو جانتے ہیں ان پر واجب ہے کہ روشن مستقبل کے لئے ایسے افراد کا قلع قمع کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments