جھوٹا سچ یا سچا جھوٹ، پورا سچ نہیں ہوتا


لاک ڈاؤن کا رونا ایسے رویا جا رہا ہے جیسے خود لاک ڈاؤن کو رونا لگ گیا ہو

یہ مخمصہ کہ کورونا وائرس کے متعدی پھیلاؤ سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن کا احتیاطی اقدام حکومتوں کی سطح پر ایک واحد اور موثر حل ہے یا نہیں، اب یہ اپنی جگہ ایک ایسے فسادی مجادلے کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ جس کے زیر اثر رائے عامہ کو یہ طے کرنا یا ہونا ہی محال ہے کہ اصل مسئلہ لاک ڈاؤن ہے یا اس کی بجائے کرونا وائرس ہے؟ اگر اصل مسئلہ کرونا وائرس کا وبائی پھیلاؤ نہیں تو پھر لاک ڈاؤن ہی واقعی اصل مسئلہ ہے۔

تو پھر اس مسئلے کا وجود ہی کیوں کھڑا کر لیا گیا ہے۔ خواہ مخواہ کاروباری معاملات غریبوں، مزدوروں، دیہاڑی داروں وغیرہ کے روزمرہ معمولات اور ملکی و قومی معیشت کا پہیہ جیسے چلنا یا چلانا ہے، چلتا رہنے دیں۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ لیکن اس کی بجائے اگر کورونا وائرس کا وبائی مسئلہ پیش نظر ہے جو ایک انسان سے آگے پوری انسانیت تک کو لگنے کا ثبوت دے چکا ہے اور مسلسل دے رہا ہے تو انسانوں کی باہمی قربت اور ان کے اختلاط پر جس قدر بندشیں عائد ہو سکتی ہیں اور جتنے طے شدہ عرصے کے لیے آزمائی جا سکتی ہیں اس سے مفر یا صرف نظر چہ معنی دارد؟ کیا کچھ طے شدہ محدود عرصے تک کے لئے حکومت یا حکومتیں ہنگامی طور پر متاثرین کی دیکھ بھال کرنے سے قاصر ہیں؟ ہاں، لیکن حکومتوں نے کورونا کورونا کھیل کر اپنی اپنی سیاست اور اس کی مقبولیت کا کوئی ڈھونگ رچانا ہے تو یہ دوسری بات ہے۔

اصل خطرہ یہ نہیں کہ معیشت نے کورونا عفریت کو جنم دیا ہے بلکہ اصل خطرہ کرونا عفریت کا ہے جو معیشت کو لاحق ہوگیا کیوں کہ معیشت کا پہیہ انسانیت گھماتی ہے اور یہ انسانیت ہی کے گرد گھومتا ہے۔ جب انسانیت بچے گی تو پہیہ گھومے گا۔ انسانیت اور اس کی زندگی ہی ضعف اور اتلاف کی صلیب پر ٹنگی رکھی گئی تو جو کچھ کرنا ہے وہ کورونا عفریت ہی نے کرنا ہے۔ معیشت تو وہی کرے گی جو کرونا عفریت اس کے کرنے کے لئے چھوڑے گی تاوقتیکہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

کرونا وائرس وبائی عفریت ہے جس کا علاج معالجہ اور پال پرہیز ڈاکٹر تجویز کرتا ہے۔ اس کا براہ راست ہدف زندگی ہے۔ زندگی انسان کے لئے نعمت خداوندی ہے تو اسی طرح دیگر اجسام یعنی حیوانات، نباتات، حشرات اور جنگلی حیات بھی نعمت خداوندی ہیں۔ آبی حیاتیات بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔ انسان کی طرح اگر زندگی کے دوسرے اجسام بھی اس کی زد پر آگئے تو پھر کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب بھی کوئی ڈنکی راجہ نہیں دے سکتا کیونکہ اسے تو صرف اپنی دولتیاں جھاڑنے اور پھرپھریاں پھونکنے سے کام ہوتا ہے، اس لئے اسے کسی سے ڈرنا ورنا نہیں ہوتا صرف لڑنا بھڑنا آتا ہے، جس کی خاطر اسے ٹائیگر فورس بھی حاصل ہوتی ہے۔

شیروں اور ٹارزنوں کی مار دھاڑ کا آسرا بھی ہوتا ہے۔ کوئی تیر بہدف علاج اس کے بس کا روگ نہیں ہوتا، جو صرف انسانی ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اور ماہرین طب کو مشورہ بطور پرہیز و احتیاط رو رو کر حکمرانوں کو سنایا جا چکا ہے کہ خاطرخواہ لاک ڈاؤن نہ کیا گیا تو ہسپتال بھر جائیں گی۔ طبی عملہ قرنطینہ ہوتا جائے گا۔ کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی ہے اور دیگر امراض کے لیے کوئی ہسپتالوں کا رخ نہیں کر رہا۔ اوپر سے ڈینگی جیسے دیگر وبائی امراض کے بڑھنے کا خطرہ بھی دستک دینے لگا ہے اور خدانخواستہ اوپر دی گئی دیگر زندگیاں بھی کورونا وائرس کی لپیٹ میں آنے لگیں تو پھر قرب قیامت کے وہ آثار گویا اسی کورونا وائرس کی عفریت بن کر نمودار ہو چکے ہیں جسے میڈیکل سائنس کوویڈ نائنٹین سے موسوم کرتی ہے جبکہ قرآن میں جس کے اشارے یاجوج ماجوج کی سونامی چڑھ آنے سے موسوم ہیں۔

قرآن کی سورۃ الکہف میں یاجوج ماجوج جس عفریت کا نام ہے وہ انسان ہی نہیں ہر جسم کی حیات خور ہے جس کی تفسیر میں مفسرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ یاجوج ماجوج کے حلقوم کرموں اور کیڑوں سے سوزش زدہ ہوئے ہوں گے اور وہ ساری زمین پر پھیل کر ٹڈی دل کی طرح سب کچھ چاٹ کھائیں گے۔ زمین پر حکمرانی خر دجال جیسے شعبدہ بازوں کے ہاتھ چڑھی ہوئی ہوگی۔ دجال گدھے پر سوار ہو کر اپنا جلوہ دکھائیں گے جیسے ڈنکی کنگ دکھاتا ہے۔ پانچ چھ ہزار سال قبل مسیح ذوالقرنین ایک ایرانی بادشاہ کو یاجوج ماجوج کے جس پہلے ٹولے سے سابقہ پڑا تھا وہ وہاں کہیں تھا جدھر سورج جا کے غروب ہو جاتا ہے اور جو آج کل کے حساب سے یونانی ایتھنز کے آرپار کہیں سمندری ڈیلٹاؤں کی سرزمین ہوگی۔

دوسرا ٹولہ وہاں کہیں تھا جہاں سورج طلوع ہوتا ہے۔ اس سے کچھ جانب شمال یاجوج ماجوج کا علاقہ تھا۔ آج کل کے حساب سے یہ جگہ چین اور میانمار پر مشتمل کوئی ایسی سرحدی کھوہ یا گھاٹی ہو گی جو دو بلند پہاڑوں کے سروں کے درمیان واقع تھی اور جسے وہاں کی آبادی کی شکایت پر ذوالقرنین نے لوہے اور تانبے کی پگھلی ہوئی سلیں چن کے دیوار کی شکل میں بند کر دیا تھا۔ جو کسی وقت اس دیوار کو توڑ کر نکل آئیں گے تو یہ قرب قیامت کی وہ گھڑی ہوگی جب سورہ زخرف آیت نمبر 61 کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کا دوبارہ دنیا میں ظہور ہوگا۔ اسلامی پیشگوئیوں کے مطابق دنیا کی حکمرانی کے لیے اس سمے امام مہدی صاحب تشریف فرما۔ ہوں گے جن کے زیر نگرانی یاجوج ماجوج کی عفریت کا بھی خاتمہ ممکن ہوگا اور خر دجال حکمرانی کا بھی خاتمہ ہوگا۔

آثار قدیمہ کے تحقیقی ماہرین، قدیم تاریخی علوم کے ماہرین اور قرآنی مفاہیم کے مسلم مفسرین اس سلسلے میں کوئی حتمی کھوج لگا سکیں تو قرآن کی روشنی میں متذکرہ اشارے سورہ کہف کی تلاوت سے بخوبی مل سکتے ہیں۔ قرآن حتمی سچ ہے، جسے کوئی انسانی جھوٹا سچ یا سچا جھوٹ جھٹلا سکتا ہے نہ مٹا سکتا ہے۔ سائنسی، قیاسی یا نظریاتی رسائی کی حد انسانی عقلیت یا منطق کے احاطۂ ادراک تک ممکن ہے۔ اس سے پرے جو حد کھلتی ہے وہاں کی فیصلہ کن حصول یابی صرف عقیدت یا ایمان سے ہی پائی جاسکتی ہے کیونکہ اس سے آگے عالم غیب کا میدان آتا ہے۔

وہاں کا نور عالم انسانوں میں صرف پیغمبر، نبی یا رسول کو حاصل ہوتا ہے اور سورہ زمر کی ایک آیت کے مطابق اللہ جس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں تو وہ اپنے رب کے نور پر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے جو ہر بشر پر نہیں ہوتی۔ اسی لئے قرآن میں اللہ اپنے نبی سے خود پوچھتے ہوئے فرما دیتے ہیں ”کیا ہم نے تمہارا سینہ نہیں کھول دیا“ اور یہ بھی کہ ”تم کہہ دو لوگوں کو میں تمہاری طرح بشر ہوں لیکن جس پر وحی اترتی ہے“ اب کوئی صرف بشریت مانے تو یہ جھوٹا سچ ہے۔ کوئی صرف نور مانے تو سچا جھوٹ ہے۔ قطعی اور حتمی سچ فقط یہ ہے کہ بشریت، نبوت اور نورانیت تینوں ایک ساتھ باہم لازم و ملزوم ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments