استاد کو کیسا ہونا چاہیے



تدریس دنیا کی ایک عظیم اور اہم پبلک سروس ہے۔ یہ انتہائی عظمت والا پیشہ اور ریت ہے۔ استاد ایک ذہین اور وسیع المطالعہ شخص ہوتا ہے۔ مغربی فلاسفی میں برٹرینڈ رسل کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ اس نے اپنے مشہور مضمون فنکشن آف دی ٹیچرز میں ٹیچر کے کردار اور صلاحیت پر سیر حاصل بحث کی ہے۔

آئیے آپ کو ایک اچھا استاد بناتے ہیں۔

رسل کے مطابق استاد کو چاہیے کہ وہ طالب علموں کے ذہن میں غیر عقلی تعصبات نہ انڈیلے کہ میں سب سے خوبصورت ہوں اور تم باقی دنیا سے بہتر اور ذہین ہوں بلکہ اس کی بجائے طالب علموں میں اخوت، اخلاق اور بھائی چارے کو فروغ دے۔ طالب علموں میں برداشت کی صلاحیت پیدا کرے۔ ایک اچھا استاد اپنے طلبا میں نیشنل ازم کے بیج نہ بوئے کہ میرا ملک سب سے بہتر اور اچھا ہے۔ باقی دنیا مجھ سے کم تر ہے۔ اس کے بجائے استاد کو چاہیے کہ طالب علموں میں انٹر نیشنلزم کو فروغ دے کہ پوری دنیا ہمارے لئے ہے، تمام ملک انسانوں نے بنائے ہیں اور تمام ملک ہمارے ہیں۔

اس کو چاہیے کہ وہ اپنے طالب علموں میں انٹرنیشنل کریکٹر کی تعمیر کرے تاکہ طالب علم بڑا ہو کر ساری دنیا کے ساتھ امن و آشتی سے رہ سکے۔ اچھا استاد طالب علم کو ضدی نظریات اور جنونیت سے بچائے اور اسے ریاستی نظریات کے خلاف سوچنے کی صلاحیت عطا کرے۔ رسل چاہتا ہے کہ استاد کا ایک بہت بڑا کام یہ ہے کہ وہ بچوں کو سوچنا سکھائے۔ وہ بچوں کو عقلیت پسندی کی تعلیم دے۔ ہر مسئلے پر غور کرنے کے لئے استاد طالب علم کو ایک منصف بنائے۔

وہ چیزوں کو کنسیڈر کرنا سیکھے۔ کسی ایک بات کے ساتھ چمٹا نہ رہے بلکہ زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے سوچنے کی عادت کو شعار بنائے۔ استاد کو چاہیے کہ وہ بچوں کو یکسانیت، بوریت اور کم ہمتی سے بچائے۔ وہ بچوں میں زندگی میں آنے والی جدت کو اختیار کرنا سکھائے تاکہ وہ ایک نئی جگہ اور نئے ماحول میں اپنے آپ کو اجنبی نہ سمجھیں۔ استاد ضدی نظریات کے خلاف ایک سیف گارڈ کا کردار نبھائے۔ وہ طلبہ کو یہ نہ بتائے کہ سوشلزم ٹھیک ہے یا جمہوریت سب سے اچھی ہوتی ہے بلکہ بچوں سے کہے کہ وہ یہ امید رکھیں کہ ان سے اور بھی بہتر سیاسی نظام آ سکتے ہیں۔

وہ کسی سیاسی پارٹی کی سائیڈ نہ لے کہ یہ پارٹی سب سے اچھی ہے۔ وہ کسی خاص پارٹی کی حمایت نہ کرے۔ ٹیچر کا کام ہے کہ وہ بچوں کو صرف یہ بتائے کہ کون کیا ہے۔ بچوں کو حقائق بتائے۔ بچے خود سوچ کر کسی فیصلے پر پہنچیں۔ استاد کو غیر جانبدار ہونا چاہیے اور اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں میں غیرجانبداریت کی خوبی کو اجاگر کرے۔ استاد بچوں کو محدود نہ کرے۔ بچوں کی سوچ کی حد بندی نہ کرے۔ بچوں کو جزوی تحقیق کا حکم نہ دے۔

مثلاً بچوں کو یہ نہ کہے جمہوریت کی خرابیاں لکھ کر آؤ یا سوشلزم کے فائدے لکھ کر آؤ بلکہ بچوں کو ایک اوپن ریسرچ کا موقع دے جس میں بچے تخلیقی اور تجزیاتی مضمون نگاری سیکھیں۔ استاد ڈسپیوٹد یا کنٹروورشل سوالات سے اپنے آپ کو نہ چھپائے بلکہ ان سوالات کا میرٹ پر جواب دے۔ استاد کلاس میں اتھارٹی نہ ہو۔ اس کے ہاتھ میں سٹک نہ ہو۔ کلاس میں استاد کا رول کٹھ پتلی کا نہ ہو اور استاد طالب علموں کے ہاتھوں کھلونا نہ بنے بلکہ استاد کلاس میں سہولت کار کا کردار ادا کرے اور کلاس کا نگران ہو۔

استاد پرانی روایات کو نہ پھیلائے۔ مثلاً وہ جہیز اور شادی کی رسومات کی حوصلہ شکنی کرے۔ اس کی جگہ عقل کا کلچر ابھارے۔ جذبات کی حوصلہ شکنی کرے۔ اس کی جگہ عقلیت کو فروغ دے۔ تخلیقی سوچ کی عادت ڈالے۔ خونخوار جذبوں کے بجائے مہربانی اور مہذب رویوں کو فروغ دے۔ رسل کے مطابق زندگی کا مقصد کیا ہونا چاہیے۔ استاد بچوں کو تعلیم دے کہ وہ میٹیریل پرسوٹ کے پیچھے نہ بھاگیں۔ زندگی میں صرف چیزیں اکٹھی نہیں کرنی چاہیں۔ استاد بچوں کو یہ بتائیں کہ پوری زندگی خوبصورتی اور خوشی کا پیچھا کرنا چاہیے ۔ وہ بچوں کو بتائیں کہ وہ اپنا مقصد بنائیں کہ اپنا ہر دن گزرے ہوئے دن سے زیادہ خوبصورت بنانا ہے۔ خوشی اور خوبصورتی زندگی کے لئے لازم ہے۔ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ زندگی خوبصورت اور پرسکون گزاریں۔

آخر میں رسل یہ کہتا ہے کہ ٹیچر خود کیسا ہے۔ ٹیچر پر کام کا بوجھ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی سوچ غیر محدود ہو۔ کسی سے ڈکٹیشن نہ لے۔ استاد ریاست کے سلیبس کا ایجنٹ نہ بنے۔ استاد سلیبس کا غلام نہ ہو۔ خود ریسرچ کرے۔ دن میں صرف دو گھنٹے پڑھائے۔ تخلیق کو مقدم رکھے۔

حکیم رسل کی ہدایات کو دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں استاد کی تربیت اور جو ماحول استاد کو فراہم کیا جاتا ہے وہ معیار کے مطابق نہ ہے۔ استاد تعلیمی نظام کا ایک بنیادی ٹول ہے اور ایک ایسا پرزہ ہے جس پر پورے تعلیمی نظام کا دار و مدار ہے۔ استاد کو ہمہ دم مطالعے میں مصروف رہنا چاہیے۔ استاد کو علم کی دوامیت اور حقانیت پر یقین رکھنا چاہیے۔ استاد ایک بچے کی خوشحال، پرخوش اور پرسکون زندگی کا ضامن ہے۔ ارباب اختیار کو تعلیمی نظام کو ایک تجربہ گاہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ حقائق پر فیصلے کر کے تعلیمی نظام کی اصلاح کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments