ماں


لفظ ماں جسے ادا کرنے کے لئے لب بھی آپس میں ملتے ہیں تو جدا ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کے قدموں تلے خدا کے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت بتلائی ہے۔ وہ ہستی جو دسمبر کی یخ ٹھنڈی راتوں میں کوک سے جنم دینے والے بچے کو خشک جگہ پر سلا کر خود بچے کی پیشاب سے گیلی ہو جانے والی جگہ پر سوتی ہے وہ ماں ہوتی ہے۔ چوٹ بچے کو لگتی ہے لیکن اس چوٹ کا درد جس ہستی کو ہوتا ہے وہ ماں ہوتی ہے۔

ماں ایسی ہستی ہے جو خود رات کی بچی کچی سوکھی روٹی کھا کر بچوں کا پیٹ دیسی گھی سے تیار کردہ پراٹھوں سے بھرتی ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جو بیٹے کے تیکھے لفظوں کے زخم جگر پر سہہ کر بھی اسی بیٹے کے حق میں رب کے حضور دعا گو ہوتی ہے۔

آج کل جدید دور میں ان کمبخت لوگوں نے ماں کا باپ کا ہر ایک رشتے کا دن منانا شروع کر دیا ہے۔ ارے کوئی ان سے پوچھے بھلا ماں کا بھی کوئی دن ہوتا ہے کیا؟ بلکہ یوں کہا جائے کہ ماں کے بنا کوئی دن دن نہیں ہوتا تو بجا ہو گا۔

ہماری ایڈوانسمنٹ نے تو بوڑھے ماں باپ کے لئے اولڈ ہوم بنا ڈالے۔ کوئی پوچھے ان سے اولڈ ہوم میں کوئی بیگانہ ان کا جتنا خیال رکھ رہا ہے۔ کیا وہ حق تمہارا نہیں بنتا؟ کیا تمہارا حق نہیں بنتا کہ تم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بوڑھے ماں باپ کو کھانا پروسو؟ کیا تمہارا دل نہیں کرتا تمہارا باپ تم سے خوش ہو کر تمہاری خوشی کے لئے رب کے حضور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے؟ کیا تم نہیں چاہتے تمہاری ماں کا چہرہ تمہارے حسن سلوک کی وجہ سے ہر دم کھلکھلاتا رہے؟ نہ کے ہر دم تمہاری بے سلوکی کی وجہ سے اس کے چہرے پر آنسوؤں کی لڑیاں بہہ رہی ہوں۔

ہماری کم ظرفی تو یہ ٹھہری کہ ادھر جوان ہو کر بیاہے گئے نہیں، کہ ماں باپ کو سر کا بوجھ سمجھ کر انھیں اولڈ ہوم شفٹ کر دیا۔ جی کیا ہے میری بیوی سے یہ بوڑھی عورت دن رات جھگڑتی ہے۔ ارے مور کھو کیا تمہاری عقل پر اس قدر پردہ پڑ چکا ہے، کہ چار دن ہوئے نہیں ایک پرائی عورت کے کہا میں آ کر برسوں ساتھ رہنے والی ماں پر شک کرنے لگ گئے تم۔ اس ماں پر الزام تراشی کرنے لگ گئے جس نے تمہیں اپنا خون چھاتی کے رستے دودھ کی شکل میں پلا کر تمہاری پرورش کی۔ جس نے خود دھوپ میں رہ کر تمہارے سر پہ اپنی ممتا کا سایہ بنائے رکھا۔

خدا نے تو ماں کے قدموں تلے جنت بتلائی ہے۔ تو کیا کوئی جنت کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے؟ یوں تو ہم دن رات رب کے حضور جنت مانگنے کی ارداس لیے بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن رب نے جنت صرف مرنے کے بعد ہی دینے کا وعدہ نہیں کر رکھا، بلکہ خدائے عظیم نے تو جیتے جی جنت کو تمہارے پاس بھیج دیا۔ بلکہ نہ صرف بھیجا بلکہ اسی جنت کی کوک سے تمہیں جنم دیا۔ کتنے خوش نصیب ہیں ہم کہ ماں کے روپ میں جنت کی کوک سے پیدا ہوئے ہیں ہم۔

لیکن افسوس کہ ہم ناسمجھوں کو جنت کی قدر کرنا نہیں آتی۔ ہم اپنی بھول بھلیوں اپنی نادانیوں میں آ کر اس ماں کا دل دکھاتے رہتے ہیں۔ جس ماں کی بدولت ہم اس دنیا میں آئے۔

دل برداشتہ ہوتی ہے تو رو دیتی ہے ماں
بیٹا کھانا نہیں کھاتا تو رو دیتی ہے ماں
چاہے لاکھ غصہ کرے لاکھ لڑ لے مگر
بیٹا گھر نہیں آتا تو رو دیتی ہے ماں

اصل میں یہ دنیا کا رواج ٹھہرا یہ دنیا کی ایک تلخ حقیقت جو ٹھہری۔ جو چیز ہمارے پاس ہو ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی۔ جب وہ چیز ہم سے چھن جائے پھر ہم پھرتے ہیں در در اسے پانے کے لئے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ صبح کام پر نکل جانا پھر واپس گھر آتے دروازے میں داخل ہو کر سب سے پہلے سامنے ماں کا چہرہ نظر آنا بظاہر یہ کچھ نیا نہیں ہے۔ انوکھا نہیں ہے۔ مگر جب یہی ماں روٹھ کر سفر آخرت کو چل دیتی ہے نا۔ تو پوری کائنات بھری ہوتے ہوئے بھی خالی خالی نظر آتی ہے۔

ماں خداتعالی کی وہ نعمت ہے جس کا دین کوئی چاہ کر بھی دے نہیں سکتا۔ کبھی پوچھنا اس سے جس کی ماں خدا نے اس سے چھین لی ہو۔ کیا بیتتا ہے بن ماں کے۔ کیسی کٹتی ہے زندگی ماں کے بغیر۔ کیسے جیا جاتا ہے مر مر کے گھٹ گھٹ کے۔

ارے نادانوں ماں تو وہ ہستی ہے۔ جس کی شان میں ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا۔ جس کا مفہوم ہے

اگر میری ماں زندہ ہوتی اور محمد عربی عشاء کی نماز پڑھا رہے ہوتے۔ میری ماں حجرے سے آواز دیتی اے محمد خدا کی قسم میں نماز توڑ کر کہتا جی امی جان۔

یعنی ماں کا درجہ اس قدر خدا نے بلند و بالا رکھا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے ہیں۔ اگر میں نماز عشاء کی نماز پڑھا رہا ہوتا اور مجھے میری ماں آواز دیتی تو میں نماز توڑ کر ان کی بات کا جواب دیتا۔ ایسی عظیم الشان ہستی کے ساتھ ہم اتنا دردناک سلوک کرتے ہیں۔

چاروں طرف نظر دوڑائی جائے تو صاف نظر آتا ہے۔ کوئی اپنی ماں کو گالی بک رہا ہے۔ کوئی ماں کو مار رہا ہے پیٹ رہا ہے۔ کوئی ماں کی عزت کو بیچ بازار نیلام کر رہا ہے۔ کوئی اسی پھول جیسی ماں کو اولڈ ہوم شفٹ کروا رہا ہے۔ وہ بھی ایسی عمر میں جب اسے اپنی اولاد کی بے تحاشا ضرورت ہوتی ہے۔

خدارا اس ماں کا کبھی دل مت دکھانا کیونکہ جب ماں روٹھ کر چل دیتی ہے نا تو مخملی بستر پر بھی نیند نہیں آتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments