حضرت انسان حاضر ہو!


وکیل استغاثہ : : جناب والا، میری موئکلہ فطرت کو شکایت ہے کہ سیارہ زمین کے باسی انسان نے اسے داغدار، اپاہج اور بے حال کر دیا ہے۔ اس نے فضا مکدر کردی، پانی گندا کیا، ماحول تباہ کرکے میرے حسن کو گہنا دیا۔ ترقی کے نام پہ زہر یلے انسان نے فضا ؤں میں زہر بھر دیے کہ اوزون کی تہہ بھی مضمحل ہو چلی۔ جنگلات کاٹ کھائے۔ آبادی کے اژدھے اناج اور سونا اگلتی دھرتی ہڑپ کر رہے ہیں اور توسیع شہرکی خاطر زمین کے زیور وں کا قتل عام جاری ہے۔ ہرطرف غلاظتوں کے ڈھیر لگادیے۔ اس کی ہوس نصیب نظریں اب دوسرے سیاروں پہ جمی ہیں۔ یہ زمین کو برباد کرنے کے بعد مریخ وغیرہ کو بھی گندا کرنے کا خواہاں ہے۔ انسان کی سرگرمیوں نے مجھے زندہ درگور کر رکھا ہے۔ پوچھا جائے کہ اسے کس نے یہ حق دیا ہے۔

انسان : سر تسلیم خم ہے جناب والا، لیکن یہ بھی ماننا ہوگا کہ خالق نے مجھے اشرف ا لمخلوقات اور مسجود ملائکہ بنایا اور کائنات کو میرے لئے تسخیر کیا۔ مجھے تخیل، ہمت اور دماغ سے نوازا اور مجھ کو فطرت سے استفادہ کرنے کا حکم دیا۔ سو میں نے یہ سب کیا۔ فطرت مت بھولے کہ وہ انسان کے لئے ہے، نہ کہ انسان اس کے لئے۔ آبادی میں اضافہ ایک فطری عمل ہے اور مذاہب اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

وکیل استغاثہ۔ حضور والا۔ انسان اپنے بیان میں مبالغہ آرائی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس سے پوچھا جائے کہ کیا اسی خالق نے پانی کے ضیاع کو گناہ قرار نہیں دیا، فضول خرچیوں سے نہیں روکا اور صفائی کو نصف ایمان نہیں کہا؟ انسان اللہ کی نعمتوں پہ اتراتا ہے۔ اسے یہ تو یاد ہے کہ رب نے کائنات تسخیر کرنے کی بات کی مگر شب تار الست کے سارے عہد بھول چکا ہے۔ اس نے دنیا میں آکر کئی خدا بنا لئے۔ کسی نے پتھرکو پوجنا شروع کیا، کوئی اپنے جیسے انسان کو خدا مان بیٹھا تو کوئی ٹیکنالوجی کا بندہ بن گیا، فساد برپا کیے اورظلم کو رواج دیا۔ کیوں؟

انسان : جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ میرے ساتھ تو بڑا حادثہ ہو گیا صاحب، کہ میری مرضی اور خواہش کے بغیر مجھے زندگی کے امتحان میں ڈال دیا گیا۔ میری قسمت لکھ دی گئی اور جب یہاں رہنے کا خوگر ہوا تو اب جہاں سے اٹھ جانے کا حکم صادر ہے۔ گویا نا یہ دنیا نا وہ دنیا۔ خواہش نہ ہو تو کچھ مل جانا، خواہش ہو تو نہ ملنا ہر دو صورتیں کتنی اذیت ناک ہیں مجھ سے زیادہ کون واقف ہوگا۔

وکیل استغاثہ : پھر مبالغہ۔ می لارڈ۔ یہ جھوٹ ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر انسان کو اتنی بڑی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ جب باقی مخلوق یہ بار اٹھانے سے معذور رہی تو اقتدار کے رسیا انسان نے یہ ذمہ داری خود اٹھالی۔ کیا یہ بھول چکا کہ خالق نے اسی بات پر اسے ظلوما جہولا بھی ٹھہرایا تھا۔ جہا ں تک مختار ومجبور کی بات ہے تو خالق کچھ شرائط پرلو ح و قلم انسان کے سپردکرنے کا وعدہ کر چکا ہے۔

حضرت انسان : مجھے کچھ یاد نہیں ہے کہ کوئی دنیا میں آنے سے قبل مجھ سے کوئی معاہدہ کیا گیا تھا۔ پھر مجھے دنیا کے مختلف خطوں اور مذاہب میں ہماری مرضی کے بغیرتقسیم کر دیا گیا۔ یہ بھی بتایاگیا کہ مالک جسے چاہے ہدایت دے، نا چاہے نہ دے۔ تقدیر کی زنجیر میں بندھا انسان کیا کرے؟ دم تھریر ہم یا ہمارے آدمی کہاں ہوا کرتے ہیں؟ باوجودیکہ مختاری کی تہمت، امتحان، آزمائش اور عذاب کی تلواریں بھی انسان کے ہی سر ہیں۔ بجا ہی کہہ گیا کوئی کہ دنیا کسی اور سیارے کی دوزخ ہے جہاں ہم سب برائے تعزیر لائے گئے ہیں۔ ہونے سے نا ہونا کتنا بہتر تھا، کاش۔

استغاثہ : یہ سب انسان کی کوتاہ علمی اور کم نگاہی کے موجب ہے۔ اسے خیر و شر کی خبر دے کر آزاد چھوڑا گیا۔ پھر قدم قدم پر راہنمائی اور اتمام حجت کے اہتمام ہیں۔ پر اس کی فطرت میں سر کشی ہے۔

انسان : جی تسلیم۔ لیکن یہ فطرت بھی تو خالق نے اپنی مرضی سے مرتب کی ہے۔ جہاں تک رہنمائی کا تعلق ہے تو بھانت بھانت کی بولیاں ہیں۔ کیا سنیں، کیا نہ سنیں۔ ملائکہ کو گناہ سے مبرا کر دیا اور مجھے پھنسا کر امتیاز برتا گیا۔

استغاثہ : مگر اسی بنا پہ انسان کو مسجود ملائک بھی کہا گیا۔ جو عبدیت کو جان گئے وہ مقام بندگی کے عوض مقام خدا وندی لینے سے انکاری ہوئے۔ کیا یہ کم اعزاز ہے؟

انسان : اس نکتے کا جواب اس شعر میں موجود ہے۔ گردش جو دینی تھی تو بنا دیتا جام مئے۔ انساں بنا کے کیوں میری مٹی خراب کی

جبکہ اہل مذاہب اپنے سوا سب باطل سمجھتے ہیں۔ کچھ HD جنت کے ایسے تقاش ہیں کہ ہالی ووڈ او ر بالی ووڈ کی ہیروئنیں ہیچ نظر آئیں تو کہیں پاتال، حاویہ اور نار جہنم سے ڈرانے والے محو خطابت ہیں۔ ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر ہی چلے۔

استغاثہ : مگر جناب ا اقبا ل تو قائل ہیں کہ دوزخ کی کوئی اپنی آگ نہیں بلکہ انسان اپنے حصے کی آگ دنیا سے خود لے کر جاتا ہے۔ جبکہ جوش نے لکھا ہے

طالب خیر نہ ہوں گے کبھی انسان سے ہم نام اس کا ہے بشر، اس میں ہے شر دو بٹا تین

انسان : می لارڈ ایسے علم الکلام کی افیونوں نے میرے ہونے کو بھی ڈبو کر رکھ دیا ہے۔ ماورائے عقل ہے کہ کیا کروں اور کیا کہوں۔

استغاثہ ؛ : انہیں باتوں سے انسان معتوب ہوتا ہے۔ آج ایک نا د کھنے والے کرونا نے اسے اوقات یاد دلا دی ہے۔ اس رمضان میں تو شیطان کے ساتھ ساتھ حضرت انسان بھی بند ہے۔ چار و نا چار مالک کی بات کرتا ہے۔ اندر کے بت دھڑلے سے براجمان ہیں مگر باہر اذانوں کا شور سمجھ سے بالاہے۔ اب ملا اور مجاہد کی اذان میں فرق کہاں؟ شاہین و کرگس کے جہاں بھی ایک ہو چکے ہیں۔ اب آدمی کے ہاں اترانے کے لائق کچھ باقی نہیں رہا۔

حضرت انسان ؛ اس بگاڑ کے ذمہ دار عام انسان ہرگز نہیں بلکہ خدا کے قرب کے دعویدار کاہن، ملا، مرشد، پنڈت، پادری ہیں جنہوں نے اپنی دکانداری کی خاطرانسانیت میں دراڑیں ڈالیں ہیں۔ صرف صوفی نے لوگوں کو جوڑا، پر اب یہ بھی قصۂ پارینہ ہوئے۔ بنت حوا کو انسان ماننے سے کتراتے ہیں۔ ان کے ہاں ننانوے فیصد خواتین کے لئے جنت ممنوع ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جنت صرف مردوں کے لئے ڈیزائن کی گئی ہے۔

استغاثہ : مبالغہ ہے جناب عالی۔ رب نے کبھی بھی جنت کو مردوں کے مخصوص نہیں کیا۔ اس نے صرف انسان کو مخاطب کیا جس میں ہر صنف شامل ہے۔ یہ آپ کے ہی بھائی بندے ہیں جو ایسی درفنطنیاں چھوڑتے ہیں۔ ایسی توضیھات وتشریحات پہ اللہ اور جبرائل بھی حیران ہیں۔ اپنے اندر دیکھوجو اللہ کی عبادت کا بھی شمار رکھتے ہو۔ قدرت ان باتوں سے پاک ہے۔ تم نے تو لاؤڈ سپیکر سے چھاپہ خانہ تک کفر کے فتوے لگائے۔ پھر ہر کفریہ ایجاد کو مذاہب کے معمولات کا جزو لاینفک بنایا۔ اب کون سی مسجد، مندر یا گرجا ہے جہاں سائنس سے استفادہ نہیں کیا جا رہا ۔ آج لاؤڈ سپیکر اور بد آواز ملاؤں نے جینا حرام کیا ہوا ہے۔ عام لوگ بھی اپنے نام مع ولدیت آن ایئر ہونے کی شرط پر مساجد میں چندہ دیتے ہیں۔

انسان : می لارڈ بلا شبہ یہ سب غلط ہورہا ہے پر عام انسان تو مذاہب سے متعلق ہونے کے موجب اور بخوف فتاویٰ یہ سر گرمیاں بادل نخواستہ برداشت کرتا ہے۔

استغاثہ : حضور والا، انسان نے مالک کی ہدایات کے بر عکس ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنا رکھی ہیں۔ کہیں عامل، پیر اور دانش ور اپنے الو سیدھے کر رہے ہیں۔ ہر آدمی دوسرے سے ہاتھ کرنے کے چکر میں ہے۔ غلو اور بدعات کے بازار سجے ہیں۔ ہر ایک اپنی منشاء کی تاویلات گھڑنے میں لگا ہے۔

انسان: ایسا ہی ہے جنا ب پر انسان کیا کرے؟ اس کے ناتواں کندھوں پہ لاکھوں ذمہ داریوں کے بوجھ جبرا لاد دیے گئے ہیں۔ اب پاکھنڈ وں کے بنا ان کی تکمیل ممکن نہیں۔ سنا ہے رب رازق ہے اور سب کو رزق دیتا ہے مگر پھر بھی بہت سے انسان فاقوں کیوں مرتے ہیں؟ قحط کیوں پڑتے ہیں؟ لوگ بھوک سے کیوں بلکتے ہیں؟ پھر ہمیں صبر و شکر کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔ اور میزان کے بعد دوزخ کی وعید بھی سنائی جاتی ہے۔

وکیل استغاثہ ؛ اللہ رازق ہے اور اس نے تا قیامت آنے والے ہر نفس کا رزق اسی زمین اور دیگر وسائل میں رکھ دیا ہے۔ اب یہ انسان کی نا اہلی و سستی ہے کہ وہ خزانے ڈھونڈھنے سے قاصر ہے۔ مالک تو ڈھونڈھنے والوں کو شان کئی بخش دیتا ہے۔ من وسلویٰ تک دیا پر انسان شاکر نہ بنا۔ غور کرو جب انسان کو زمیں پر بھیجا گیا تو سنسان سیارہ تھا۔ کچھ بھی نہیں تھا لیکن آج کی رنگا رنگی اور ترقی اسی زمین کے خزانوں سے ممکن ہوئی۔ کچھ بھی کسی اور جہان سے نہیں آیا۔ اب انسان خود ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے تو غیب سے کب تک مدد ملے؟ اللہ نے ایک بار پھر حالیہ وبا کے ذریعے انسان کو جھنجھوڑا ہے، سدھرنے اور دنیا کو من کی آنکھ سے دیکھنے کا موقع دیا ہے۔

فاضل عدالت : فریقین کے الزامات و جوابات کی روشنی میں عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مقدمہ ہٰذا انتہائی گمبھیر معاملہ ہے۔ لہٰذا فریقین کو کامل دلائل اور حقائق سامنے لانے کے لئے مزید وقت دیا جاتا ہے۔ عدالت یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ انسانی تاریخ میں ایسے مقدمات ہمیشہ سے ہی مسائل لا ینحل رہے ہیں۔ سو اس مقدمے کو نپٹانا بھی عدالت ہٰذا کے لئے نہایت کٹھن اور دشوار ہے۔

SO ,THE CASE IS REFERRED TO THE HIGHEST COURT ,FOR THE DAY OF JUDGEMENT


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments