کراچی آپریشن، ٹرک کی لال بتی


(عمیر دبیر)

\"umair-dabeer\"ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو روکنے کے لیے اسمبلی میں ایک قانون نیشنل ایکشن پلان کے نام سے متعارف کروایا گیا۔ تمام سیاسی مذہبی جماعتوں نے اس قانون پر اعتماد کرتے ہوئے حامی بھری اور باقاعدہ ایوانِ بالا سے منظوری کے بعد یہ باقاعدہ قانونی شکل میں سامنے آیا جس کے بعد ملک میں آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔

ابتدائی طور پر آپریشن کا آغاز پاکستان کے معاشی حب اور ریڑھ کی ہڈی سے شروع ہوا، تین سال سے زائد عرصہ ہوا یہ آپریشن متنازع بھی ہوا تاہم آج بھی جاری و ساری ہے۔ اہلیان کراچی کو اس آپریشن سے کافی راحت و چین نصیب ہوا تاہم اسٹریٹ کرائم کا جن اس وظیفے سے بھی قابو نہیں ہوسکا اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے چلتا رہا۔

چونکہ یہ قانون ملک کے تمام علاقوں میں نافذ العمل ہونا تھا مگر جیسے ہی پنجاب میں اس کے عملدرآمد کی باتیں شروع ہوئیں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسے واقعات رونماء ہوئے کہ قوم کے ذہنوں سے یہ بات نکلی اور وہ ٹرک کی لال بتی کے پیچھے چل پڑے۔ جہاں کراچی آپریشن میں اداروں کو مصدقہ اطلاعات پر بڑی کارروائیاں نصیب ہوئیں وہیں ذرائع کی جانب سے آنے والی جے آئی ٹیز نے بھی جنوبی پنچاب کے دہشت گردوں کو بہت ریلیف فراہم کیا تاہم وقت کے ساتھ جے آئی ٹی اور پنجاب آپریشن کی باتیں قصہ ماضی ہی بنی۔

نیشنل ایکشن پلان کے عملدرآمد ہونے کے اوائل میں ساری جماعتوں نے کراچی آپریشن کی غیر مشروط حمایت کی مگر جیسے جیسے اس کا دائرہ وسیع کیا گیا لوگ اس کو برا کہنا شروع ہوئے، ابتدائی دنوں میں صرف کراچی کی ایک جماعت کو اس کی شفافیت پر اعتراضات تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتیں اور میڈیا خود بھی اس پر سوال اٹھانے لگے۔

جنوبی پنجاب میں آپریشن کے آغاز کی بحث یا مطالبہ شروع ہوا تو صرف ایک یا دو روز بعد کسی دوسرے واقعے نے اسے بھرپور سہارا فراہم کر کے موضوع کو پس پشت ڈال دیا۔ جنوبی پنجاب کے ساتھ لوگوں نے لال مسجد کے طلباء کی جانب سے داعش کو ملک میں دعوت دینے اور اُن کی بیعت کی تو عمران فاروق قتل کیس نے اس اہم دعوت کو چھپا دیا۔

اسی طرح چھوٹو گینگ، رانا ثناء اللہ پر لگائے جانے والے قتل کے الزامات اور پنجاب سے القاعدہ و داعش کے دہشت گردوں کی گرفتاریوں کو منی لانڈرنگ کیس، ٹارگٹ کلرکی گرفتاری، اہم انکشافات، 22 اگست اور را کے الزامات نے کامیابی سے چھپا لیا اور لوگ وہی ٹرک کی لال بتی کے پیچھے چل پڑے اور شاباشیاں دینے لگے۔

بات یہی ختم نہیں ہوئی بلکہ گزشتہ دنوں جڑواں شہروں میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود دفاع پاکستان کونسل کو اسلام آباد میں دھرنے کی اجازت اور وزیر داخلہ سے کالعدم جماعتوں کے سربراہان کی ملاقات میں طے پانے والے معاہدے کے تحت فورتھ شیڈول سے دہشت گرد قرار دیے جانے والے افراد کے شناختی کارڈ بحال کرنے کی باتیں حرف عام میں زیر بحث تھیں کہ کراچی میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا نیا سلسلہ شروع ہوا اور پھر بڑی گرفتاریاں کی گئیں جس کے بعد وہ بھی منوں مٹی تلے دب گئی اور لوگ بھول کر پھر ٹرک کی لال بتی کے پیچھے چلنے لگے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں ہونے والی حالیہ گرفتاریوں کو  انٹیلیجنس اور شواہد کی بنیادوں پر کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ جو گرفتار ہوئے وہ واقعات میں ملوث ہوسکتے ہیں مگر گزشتہ روز وزیر اعلیٰ ہاؤس سے ایک بیان جاری ہوا جو پھر شکوک و شبہات میں مبتلا کررہا ہے۔ مراد علی شاہ نے امجد صابری قتل اور دیگر ہائی پروفائل کیس میں گرفتار ہونے والے ملزموں کی گرفتاری کی خوشخبری سناتے ہوئے ایک سوال کا جواب دیا تھا کہ فیصل رضا عابدی غیر قانونی اسلحہ کیس میں گرفتار ہیں اگر وہ اسلحے کا لائسنس دکھا دیں تو رہا کردیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments