پاک آرمی کو خدا سلامت رکھے


جب انسان بچہ ہوتا ہے۔ تب اس کے والدین ہر وقت اس کے آگے پیچھے لٹو ہوئے پھرتے ہیں۔ ادھر اس کے منہ سے ایک چھوٹی سے آہ نکلی نہیں کہ ادھر اس کے ماں باپ اس کے پاس دوڑے چلے آتے ہیں۔ یہ پوچھنے کے لیے کہ ہمارے فرزند کو کچھ ہوا تو نہیں۔ پھر جوں جوں بچہ پروان چڑھتا ہے۔ تب والدین کے دل میں بچے کے لیے فکر اور بھی بڑھنے لگتی ہے۔ کہیں کسی موڑ پر کوئی ہمارے بچے کو نقصان نہ پہنچا جائے۔ ہر دم اس کے نام کی مالا جپتے رہتے ہیں۔ گویا کہ ہر موڑ پر ہر قدم پر اس کی رکھوالی کرتے ہیں۔ پھر جب انسان پروان چڑھ جاتا ہے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ تب اس کا حق بنتا ہے۔ اپنے ماں باپ کی ڈھارس بننا۔ تب اس کا حق بنتا ہے۔ ماں باپ کا سہارا بننا۔ ان کا خیال رکھنا۔

یوں تو تمام تر فورسز تمام تر انسانوں کے لیے ملک پاکستان گویا کہ ہمارے والدین کی طرح ہماری ماں کی طرح ہے۔ کیونکہ جنم دینے والی ماں کے بعد یہ دوسری دھرتی ماں ہے جس کی گود میں ہم اپنا بچپنا گزار کر بڑے ہوئے ہیں۔ پروان چڑھے ہیں۔ یوں تو ہم سبھی اس دھرتی ماں کے سپوت ٹھہرے۔ مگر ہمارے فوجی بھائیوں اور اس ماں کا اپنا ایک الگ تھلگ ہی رشتہ ہے۔ ادھر کسی نے ہمارے ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا نہیں کہ ادھر یہ دھرتی ماں کے سپوت جان ہتھیلی پہ رکھ کر اس کی عظمت و آبرو کی رکھوالی کے لیے بنا جان کی پرواہ کیے دوڑ پڑتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ کے بابوں کو کھول کر پڑھیں، کھول کر دیکھیں۔ اپنے شہید بھائیوں اور اس دھرتی ماں کے لیے قربان ہونے والے جوانوں کے قصے پڑھ کر ہمارا سینہ فخر سے چوڑا ہو جائے۔

یوں تو تمام تر فورسز پاکستان اپنی مثال آپ ہیں۔ ہر ایک اپنی جگہ اپنے قانون کے دائرے میں رہ کر پاکستان کو چار چاند بخشتے ہیں۔ مگر پاک آرمی کی اس ملک پاکستان کے لیے پیش کی گئیں قربانیاں بے شک سب سے بالاتر ہیں۔ کیونکہ جب بھی بارڈر پر دشمنوں کی یلغار کا ریڈ الارم بجتا ہے۔ تب سب سے پہلے ہمارے آرمی کے جوان کی فرنٹ لائن میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ کوئی غازی بن کر محاذ سے واپس آ کر اپنی ماں کے گلے ملتا ہے۔ تو کسی گھر کی دہلیز کے باہر اس کی سپوت کی شہادت کا تختہ لگتا ہے۔

جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ تب سے دشمنان پاکستان اور دشمنان مسلمان اسی کوششوں میں لگے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اسے ختم کیا جائے۔ اسے دبایا جائے۔ جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں۔ ملک پاکستان کس قدر مشکلات جھیل کر ہمیں ملا۔ پھر کوئی کیونکر اسے دیکھ کر خوش ہو گا۔ یہی شیطانی سوچ رکھتے ہوئے دشمنان پاکستان نت نئے ہتھکنڈے اپناتے رہتے ہیں۔ کبھی ایل۔ او۔ سی پر کھڑے ہمارے نوجوانوں پر بلاشتعال فائرنگ کر کے انھیں ابدی نیند سلا دیتے ہیں تو کبھی ٹیکنالوجی کی آڑ میں وائرسز بنا کر ہماری معیشت کمزور کرنے میں لگ جاتے ہیں۔

مگر شاید دشمن کو یہ خبر اب تک نہیں ہو پائی۔ یہ بات ان کے پلے اب تلک نہیں پڑ پائی۔ کہ ہمارے فوجی جوان اس دھرتی ماں کی آن بان شان کو بچانے کے لیے ہمہ دم الرٹ کھڑے ہیں۔ ہمارے ازلی دشمن انڈیا جس سے ہمیشہ سے ہمارا چھتیس کا اکڑا رہا ہے۔ جس نے ملک پاکستان کو دنیا کے نقشے پر سے مٹانے ہر ممکنہ کوشش کی ہے۔ کئی جنگیں کئی ہتھکنڈے بھی استعمال کر کے دیکھے اس دشمن ملک نے۔ مگر وہ کہتے ہیں۔ ”جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے“

اگر تاریخ کو کھول کر دیکھیں تو سب سے بڑی پیش کی گئی قربانیوں کے سالوں میں 1965 سنہری لفظوں میں چمکتا نظر آتا ہے۔ جب ہمارے دشمن انڈیا نے پاکستان پر اپنے پاؤں جمانے کے لیے لاہور کے رستے پاکستان میں انٹر ہونے کی کوشش کی تو جانباز میجز عزیز بھٹی شہید نے انھیں ایسی دھول چٹائی کہ دشمن دم دبا کر بھاگ نکلا۔ یہاں سے منہ کی کھا کر دشمن نے سیالکوٹ کے رستہ منہ مارنے کی کوشش کی تو ہمارے جانباز شیروں نے چونڈہ کے مقام کو دشمنوں کے قدموں کو روکنے کے لیے سینے پر بارود باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ کر چونڈہ کو ٹینکوں کا قبرستان بنا ڈالا۔ اگر ایک طرف سن ستر میں جوان راشد منہاس کی دشمن کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانے کی اونچی پرواز ہے۔ تو دوسری طرف پاک فضائیہ کے شاہین ایم۔ ایم۔ عالم ہیں۔ جنہوں نے نہایت کم وقت میں کئی طیاروں کو تباہ و برباد کر کے دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو نیست و نابود کر دیا۔

ایک طرف دسمبر 1971 کی انڈو۔ پاکستانی وار ہے تو دوسری طرف جولائی 1999 کی کارگل کی لڑائی ہے۔ جب ہمارے بہادر شیروں نے دشمنوں کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ مگر ہم پاکستانیوں کے جگرے ٹھہرے شیروں والے ہم دشمن کر گلا کاٹنے کے لیے اس کی گردن پر چھری رکھ کر بھی اٹھا لیتے ہیں۔ اسے سدھرنے کا موقع دیتے ہیں۔ ایسا ہی اس دشمن ملک انڈیا کو بھی کئی موقع ہماری طرف سے دیے گئے مگر وہ کہتے ہیں نا ”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے“

انھوں نے ہمیشہ کی طرح لات کھا کر ہی ماننا تبھی انھیں عقل آئے گی۔ 1999 کارگل کی لڑائی میں ہمارا شیر دل جگرا دیکھو کہ ان دشمنان پاکستان کو نرغے میں لا کر چھوڑ دیا۔ ہماری رحم دلی یہیں تک ختم نہیں ہو گئی بلکہ فروری 2019 میں فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے انڈین فلائیٹ لیفٹینینٹ ابی نندن کو پکڑ کر اسے قتل کرنے کی بجائے اسے مہمانوں کی طرح ٹریٹ کر کے اپنی امن پسندی کے خیر خواہ ہونے کی ایک عمدہ مثال بھی قائم کر دی۔ ابی نندن کو چائے پلا کر اس کے اوپر ایک اور احسان بھی کر دیا۔

مگر شاید انڈین آرمی اپنے ہسٹری پڑھے ہی آرمی میں آ گئے۔ یہ شاید ہماری ہسٹری سے ابھی تک اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ تبھی آئے دن ایل۔ او۔ سی پر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئے دن فائرنگ کرتے ہیں۔ تو کبھی کچھ ڈرامے بازی کرتے ہیں۔ سنبھل جاؤ ہم پاکستانیوں کا بچہ بچہ آرمی کا حصہ ہے۔ کبھی بھولے سے بھی للکارنا مت وگرنہ ہماری ایک بار اگر سوئی اٹک گئی تو دن چڑھنے سے ڈھلنے تک انڈیا کا نقشہ دنیا کے نقشے پر سے مٹ چکا ہو گا۔ ہماری طرف سے امن پسندی کے اشاروں کو کب سمجھو گے تم؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments