ہمیں بہت سے استاد چاہییں


اچھے استاد کی تعریف کیا ہوتی ہے؟ یا کیا کی جا سکتی ہے؟ میرے خیال میں یہ ممکن نہیں۔ استاد عمل اور کردار میں تمام خوبیوں کا پیکر ہوتا ہے۔ سب سے عظیم استاد محمدعربی ﷺکی مثال رکھی جا سکتی ہے۔ طالب علموں کے لیے استاد ایک جامع نمونہ ہوتا ہے۔ اسکول، کالج، جامعہ سے باہر انسانی رویے اور عموماً زندگی میں بھی اس کا کردار اہم ہوتا ہے۔ علم کے ساتھ استاد کا کردار و عمل بہت معانی رکھتا ہے۔ طالب علم دیکھ رہا ہوتا ہے کہ جو ہمیں علم تفویض کیا جا رہا ہے استاد خود پر اس کا اطلاق کرتا ہے یا نہیں۔ یہ سوال بہت اہم ہے۔ یہاں چند باتیں لکھنے کا تعلق اپنے مشاہدے سے ہے۔ ضروری نہیں جس طرح میں نے اساتذہ کو سمجھا، پایا اوروں نے بھی وہی تجربہ محسوس کیا ہو۔

میری اٹھارہ سالہ تعلیمی زندگی میں نہایت قلیل تعداد میں کہ انگلی کی پوریں زیادہ ہیں، کتاب دوست، قابل اور محنتی اساتذہ سے پڑھنے اور ملنے کا اتفاق ہوا۔ پڑھنے اور جاننے کا کوئی وقت نہیں گر آپ کو ایسے استاد میسر ہیں، پھر یہ عمل روشنی اور اندھیرے کی ساعتوں میں بھی جاری رہتا ہے۔ طالب علموں سے کتاب کا رشتہ ہمیشہ بنا رہتا ہے۔ زندگی کے ہر پہلو میں یہ معاون ہوتے ہیں۔ کتاب شفیق ڈاکٹر غلام عباس گوندل اور کتاب گیر ڈاکٹر محمد نعیم میں ایسی خوبیاں محسوس کیں۔ ان کے یہاں گیتی آرا، گیتی افروز کے معانی باہم یکجا ہیں۔ طالب علموں سے مخلص ہونا ان سے سیکھا۔ ایک کلاسیک کا دروازہ ہے تو دوسرے جدیدیت کا رستہ۔ دونوں کی علمی گفتگو نثری کتاب کے مانند ہے۔ یہاں خوشامد مقصود نہیں، مجھ سے اگر مثال مانگی جائے تو یہ نام سامنے رکھ دوں گا۔

پہلے وقتوں کے اساتذہ ایک ادارہ، انجمن، کتاب دوست، وسیع المطالعہ، وسیع القلبی، بلند حوصلہ، برداشت، صبر، اپنے آرام سے وقت کاٹ علم پیاسوں کو تعلیم دینے والے بصیرت والے کی صورت تھے۔ طالب علموں سے دوستانہ تعلیمی سلسلہ، رکھ رکھاو، نشست و برخاست کے علاوہ مرنے کا سلیقہ تک سمجھایا جاتا تھا۔ کسی سے لینا دینا نہیں، کسی بھی سیاسی یا غیر اخلاقی، غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں۔ وقت پر مکتب جانا اور دیر تک شاگردوں میں رہنا ان کا مشغلہ تھا۔

سیکھنے سکھانے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ کم معاش میں بڑی خوش اسلوبی سے گزارا تھا۔ شاید تعلیم دینا ہی ان کے پیش نظر تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مخلص تھے۔ اب کے استاد میں ایسی خوبیاں ہونا تو دور، پیدا بھی نہیں ہوتیں۔ ہوں بھی کیسے اب ترجیحات، نظریات، معیار حتی کہ شاگردوں کے انتخاب کے درجات بھی ہٹ کے ہیں۔ اس لیے استاد اب اتنی محنت سے تعلیم نہیں دے رہا، جتنی محنت سے مشہور گزرگاہوں میں بے حس حکمرانوں کے سامنے کھڑے ہو کر یہ منوانے کی کوشش کرتا ہے کہ میں ایک استاد ہوں۔ اس صدی اور آنے والی میں کم عزت استاد کی ہے شاید کلرک کہیں زیادہ عزت و احترام رکھتا ہے۔

وجوہ ڈھونڈھنے کے لیے ایسے بھی تردد یا نشست بدلنے کی ضرورت نہیں۔ استاد نے کبھی اپنا محاسبہ کیا ہی نہیں۔ یہ بھی سوچنے کی کبھی زحمت مرحمت نہیں فرمائی کہ ہم کس مقام و مرتبہ پر فائز ہیں۔ کیا ہم تعلیمی نظام کی بہتری میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں؟ کیا ہم وہ سب فریضہ خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں، جس کا یہ وطن پاکستان تقاضا کرتا ہے؟ کتابوں سے کتنی دلچسپی ہے اور کتنی پڑھنے کے لیے لیتے ہیں؟ کتنے شاگرد ایسے پیدا کیے جو آگے چل کر آپ کا نام پورے اعتماد سے لیں گے؟ کن نظریات کا پرچار کریں گے؟ کیا ان کو زندگی کے متعلق مثبت طرز عمل رکھنے کا سکھایا گیا ہے؟

کسی اسکول کے استاد سے لے کر جامع کے استاد سے پوچھ لیں کہ بھئی آپ کتنی کتابیں پڑھتے ہیں؟ کون کون لکھ رہا ہے؟ کیا نئے رجحانات آرہے ہیں؟ کس نے کیا لکھا کیسے لکھا وغیرہ۔ یہ تو شاید کوئی نہ جانتا ہو پر یہ خوب علم ہو گا کہ ہماری تنخواہ یہ ہونی چاہیے تھی۔ ہمیں یہ بھی ملنا چاہیے، جس کے ہم اہل نہیں۔

میں نے کئی اساتذہ سے پڑھا ہے۔ کیا سب نے تھوڑا تھوڑا کر کے مجھے تراشا ہے؟ گر سچ بولو تو نہیں۔ میں اب بھی شعبے سے متعلق اور سابق طلبا سے ملتا ہوں۔ کتنے کوئی کس کس کی تعریف کرتا ہے، بڑی خوبی سے جانتا ہوں۔ میں نے ایک ہی زبان میں تعلیم دینے والوں میں دوریاں، نفرتیں، بناوٹی لہجے، بڑے صاحبوں کی خوشامدیں، سیاسی عہدوں پر فائز لوگوں سے تعلقات کی بڑکیں، ایک ہی منصب کے لیے تلخ باتیں، دو نہیں بہ یک و قت لاتعداد نظریات دیکھے ہیں۔ کیا یہ سب باتیں استاد کے متعلق معلوم ہوتی ہیں؟ پھر آج جو حالت میں ہیں خود ہی غور کر لیں، شاید اس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments