رومانوی منجیق اور سیکولرازم کا سومنات



\"shakoorسولہ سترہ برس ہوتے ہیں ، برادرم آصف محمود کے رومانوی ’ترکش‘ سے آشنائی ہوئی۔ مسافر نے تب سفر آغاز کیا تھا اور شیخ صاحب کے ظفر حجازی روزنامہ کا ادبی صفحہ مرتب کیا کرتا تھا۔ آپ کے جملہ کی تازہ کاری شاید جناب خورشید ندیم سے گزرتے ہوئے ادارتی صفحات تک پہنچی ۔ پھر جناب حمید گل سے الیکٹرانک میڈیا تک اداریہ نویسی سے اینکرپرسن تک کئی کامیابیاں سمیٹیں تاہم رومانویت بھی جبلت ہی ہوتی ہے کہ جون پھٹ پڑتا ہے کہ 

ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر
سوچتا ہوں تری حمایت میں

سو آصف محمود نے دلسوزی سے لکھے تازہ کالم میں موجودہ مذہبی سیاست کو سیکولرازم کا ہراول دستہ قرار دیا ہے۔ مسافر اس پر ہنگامی اور تاثراتی ردعمل نہیں دینا چاہتا تھا بلکہ چکی کی مسلسل مشقت سے فراغت ملنے پر سخن کرنے کا ارادہ تھا مگر آپ کے ان اختتامی جملوں نے مسافر کو بھی جذباتی کر دیا۔آپ کہتے ہیں۔

مذہبی سیاست آج اپنے اخلاقی بھرم کے اعتبار سے وہیں کھڑی ہے جہاں دوسرے اہل سیاست کھڑے ہیں۔وہ تمام آلودگیاں مذہبی سیاست کو اپنی گرفت میں لے چکی ہیں جن سے اللہ والے اجتناب ہی کرتے آئے ہیں۔یہاں اسلام کی سر بلندی کے لئے آئی جے آئی بنتی ہے تو بعد میں پتا چلتا ہے پس چلمن کون تھا۔یہاں نظام مصطفی کے لئے تحریک چلتی ہے اور لوگ حق کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ان کی گردن پر ضیاءالحق مسلط کروا کر صالحین گھروں کو چلے جاتے ہیں۔

اگر یہی صورت حال رہی توآنے والی نسل مذہب کے نام پر سیاست کو استحصال سمجھ کر رد کر دے گی اور معاشرہ سیکولرازم کی دلدل میں جا گرے گا۔اگر ایسا ہو گیا تو اس کے ذمہ دار اہل مذہب خود ہوں گے۔تاریخ انہیں سیکولرازم کے ہراول میں شمار کرے گی…. ان حالات میں آ خری امید سیکولر احباب ہیں۔جوں جوں سیکولرانتہا پسندی کے فکری تضادات سماج پر آشکار ہوتے جائیں گے لوگ واپس دین کی جانب لوٹنا شروع ہو جائیں گے۔مذہبی انتہا پسندی کے بعد سماج کا شعورِ اجتماعی سیکولر انتہا پسندی کو بھی رد کر دے گا۔ اس کے بعد ایک متوازن اسلامی جمہوری سماج کی تشکیل ایک فطری بات ہو گی۔

ان کے کالم کے پرتاثیر اختتامیہ سے دونوں مکمل پیراگراف جوں کے توں شامل کرنے کا مقصد ان کی مکمل فکر کو سامنے لانا ہے ۔ یہ’ فکر‘ عوامی معنوں والی ’فکر‘ بھی ہے کہ وہ متفکر دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ پجاریوں کو ظل الہی کے روبرو کر رہے ہیں کہ بقول ان کے اہل مذہب عقیدتی معاشرے میں حرصِ رنگ و بو کر رہے ہیں جس سے اہل مذہب ہی سیکولرزم کی نمو کر رہے ہیں ۔ مسافر یہ تو نہیں کہتا کہ وہ غلو کر رہے ہیں مگر حیرت ہے کہ وہ کیسی گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ اختتامیہ کالم کا نہیں ،کسی ڈوبتے سفینہ کا محسوس ہواکہ جہاں کے ناخدا مسلسل تیرنے تیرانے کی جستجو کررہے ہیں اوراس ڈوبتی ناو¿ پہ چند مسافرانِ شوق ہاو¿ ہو کر رہے ہیں۔

فاضل کالم نگار کی ممکنہ ومجوزہ ’اسلامی جمہوری سماج کی تشکیل‘ والی آخری سطروں سے گھبرا کر کی جانے والی قافیہ پیمائی نہیں کہ مسافر کا مذہبی دانش کے کمزور پڑتے جانے اور اپنی ہی صلیب میں گڑتے جانے کا لفظی المیہ قابل احترام وجاہت مسعود کے پاس جانے کب سے پڑا ہے کہ اس میں انفرادی مذہبی ہیولے سے کچھ زیادہ ہی محبت دکھائی گئی ہے۔ یہ شکایتی حوالہ اس لیے کہ بندہ گفتگو سے پہلے واضح کرے کہ وہ یہودی ایجنٹ نہیں ہے بلکہ اپنی سوسائٹی میں عقیدت ، ایثار، قربانی و وارفتگی کے انمٹ (یا دیر مٹ) نقوش پر یقین رکھتا ہے لیکن حضور یہ بھی زیادتی ہے کہ آپ سیکولرازم کی نمو کو اہل مذہب کی غلط تعبیر دین سے جوڑ دیں۔ ایسے ہی ۔ جیسے جناب غامدی کی تعبیر دین کو درست ماننے کا مطلب یہ نہیں کہ بقیہ ننانوے فیصدی مکاتب گم راہ کردہ ہیں اور آپ کا مقدمہ تو یہی ہے کہ اہل مذہب کی زرپرستی دراصل عوام الناس کو دین داروں بلکہ خود دین سے متنفر کر رہی ہے۔ اس کے لیے آپ اسمبلی کیفے ٹیریا میں اپنی موجودگی اورایک سابق سینیٹر سے مکالمہ میں مولانا فضل الرحمان کو عوامی کنایہ میںیاد کرتے ہیں۔ کیا یہ اہل مذہب کی بددیانتی کی نامعقول مثال نہیں ہے؟ کیا سیکولرزم صرف اس وجہ سے نمو پذیر ہے کہ آپ کے ڈیزل کہنے پر بلیدی قہقہہ لگاتے ہیں۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ اہل مذہب کے اکثریتی گروہ فلاحی ، سماجی، رفاہی اور تعلیمی سرگرمیوں پر بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔جماعت اسلامی کے ذیلی ادارہ الخدمت فاونڈیشن کروڑوں نہیں، اربوں روپے کے فلاحی کام کرا چکی ہے۔ تبلیغی جماعت کا پانچواں نمبر ہی ’اکرام مسلم ‘ ہے جس میں اپنی جان ، اپنا وقت اور اپنا پیسہ دوسروں پر لگایا جاتا ہے۔ایسے میں ایک مخصوص مکتبہ کا فلاحی دانہ بھی اس تسبیح میں پرو لیجیے کہ دعوت اسلامی کے بیسیوں سکولز میں ہزاروں طلبہ و طالبات کسی بھی فیس کے بغیر کتاب، یونیفارم، کھانا بلکہ ماہانہ اعزازیہ اور جدید میٹھی تعلیم بھی لیتے ہیں۔ لاکھوں بچوں کو روٹی کپڑا مکان دینے والے دینی مدارس کو این جی او تو خود مشرف نے کہا تھا۔اور یادش بخیر، ابھی پچھلے برسوں میں زلزلہ اور سیلاب میں جناب حافظ سعید احمد صاحب کی کالعدم تنظیم کی فلاحی خدمات کا اعتراف تو دنیا بھر نے کیا۔ اہل مذہب کی کون سی کرپشن سیکولرازم کے پھیلاو¿ کا سبب بن گئی۔ نہیں سمجھ پایا۔ کیااحباب اب، سیکولرزم کے بڑھتے پھیلتے منارے کو ایسا کھمبابنا دیں گے کہ جسے بہ حوالہ مضمون، کھسیانا ڈیزل نوچ رہا ہو۔ ایسا مت کیجئے۔ آپ نے موجودہ مذہبی دانش کا سرسری موازنہ متقدمین سے کیا۔ کیاکوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی پر مالیاتی کرپشن کا کوئی الزام کبھی لگا ہو، مفتی محمود کی تنگ نظری کا کوئی ایک واقعہ؟ مولانا عبدالستار نیازی کی کوئی ایک بدعہدی یا پھر شاہ احمد نورانی کی کم آگہی کی کوئی معمولی سی ایک مثال؟ نہیں ہے مگر کسی ایک الیکشن میں ، کسی ایک عظیم المرتبت نے، ایوان میں دو عددی نشستیں جمع کرلی ہوں؟ اس کا جواب بھی نہیں ہے۔ لوگوں کی سیکولرزم کی طرف رغبت کو اگر اہل مذہب کی زرپرستی سے معنون کیا جائے گا تو سوچنے والے سوچیں گے کہ سیکولرزم کی کھلم کھلا داعیان ایم کیو ایم ہو یا پھر پیپلز پارٹی…. کیا مذہبی جماعتوں کا بیت المالی نظم و نسق ان سیکولر جماعتوں سے کم تر ہے۔ یقینا ایسا نہیں ہے۔اگر یہ مان لیا گیا ہے کہ سیکولرازم نمو پزیر ہے تو یہ مان لینے میں بھی کیا ہرج ہے کہ عوام کی اکثریت شروع ہی سے جبر، پابندی اور تحکم کے فتاوی سے بے زار رہی ہے ورنہ ’کافراعظم‘ کا نعرہ تو ، خوش قسمتی ، مقبول نہ ہوا، سر ظفراللہ، کارنئیلیس کی رفاقت اور وہ جوگندر ناتھ منڈل کہ جو وزیر قانون تھے اور اس مملکت کی تمام قانون سازی جن کے ذمے تھی۔ کیا جناب جناح کے اس جیسے بڑے ( یا کڑے کہہ لیں ) فیصلہ پر کوئی مظاہرہ، کوئی احتجاج مو¿رخین بتاتے ہیں؟عمومی عوامی نہ سہی، اہل مذہب کی نمائندہ جماعتوں کی طرف سے ہی سہی؟ تو یہ نہ ماننے کا کوئی ٹھوس جواز کہ عوام کی اکثریت شروع ہی سے جبر، پابندی اور تحکم کے فتاوی سے بے زار رہی ہے۔ ہاں سیکولرزم کے اکھوے کو کیا نمو ملتی کہ سجاد ظہیر اور اکبر خان نے منگنی سے پہلے ہی بچے کی سنتیں کرنا چاہیں۔ سو خود بھی داخل حمام ہوئے اور عوام کو بھی کئی دہائیوں تک آب زم زم سے غسل صحت کرانے کا پکا بندوبست کر ا گئے۔اور بیسویں صدی کے نصف آخر کی پانچ دہائیوں میں عوام کے سامنے انتخاب تھا ہی کہاں جناب۔ نموپذیری کے لیے خطبہ، وعظ تھا یا داداجان نیزمنشی فاضل کاعقیدت بھرا بیان جبکہ کتھارسس کے لیے کالج لان میں جوشیلے بینرز میں سبز تبدیلی کے ایشیائی نعرے اور یا پھر پی ٹی وی اور رائٹر گلڈ کے شہاب ثاقب۔

اب پچھلے اٹھارہ بیس برس میں جنم لیتی نسل نے یہ کرب اور قرب کی منزلیں نہیں دیکھیں۔ وہ نظام صلوٰة سے نظام تعلیم تک میں روایتی قدروں کی بھرپور موجودگی کے باوجود پنڈال میں انقلابی رقص کرنے کی رومانویت میں گم ہونے کو تیار ہے مگر مولانا کو ووٹ دینے کو نہیں کہ کئی ملین ڈالر عوام کی فلاح پر خرچ کرنے والی دینی جماعتوں کو ان بلدیاتی انتخابات میں کہ جو اسی انفرادی رفاہ عام اور فلاح عوام کے لیے ہوئے، چند فیصدی کامیابی بھی نہیں ملی۔

فاضل کالم نگار تحریر کا اختتام جس طنز سے کرتے ہیں، ان جیسے دلیل والے سے اس غلیل کی توقع نہ تھی۔ کیا ، خاکم بدہن، مذہبی بیانیہ کی عملی تفسیر وتعبیر کا آخری طریقہ یہ رہ گیا ہے کہ جب سیکولرزم ناکام ہو جائے گا تب ارض خدا کے کعبے سے بت اٹھوائے جائیں گے۔ آٹھ سو سال سے کسی پیر دستگیر کی جالی کے سامنے بیٹھا ایک سادہ لوح اگر اس انتظار میں ’مرحومہ‘ کو ’مسلمہ‘ کہتا رہے تو حیرت نہیں ہوتی لیکن بیس برس سے لفظوں کے ترکش سے جنگلوں میں معانی کی تلاش میں گم اس جذباتیت زدہ دلسوز کی یہ رومانویت دیکھی نہیں جاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments