لمز (LUMS)کا جھٹکا اور پرویز ہود بھائی کی ذہنی پسماندگی


\"abul-hasan-razi\"میرے موضوع کو خود موصوف ہی کی لکھی حالیہ تحریر کے درج ذیل اقتباس سے بھی تائید حاصل ہے۔

”مغربی سائنس سے توجہ ہٹانے کے لیے پچھلے ماہ لمز نے پاکستان کے ایک اعلیٰ اور قابل ترین میتھ میٹیکل فزسسٹ کو اس کی مدت ملازمت پورے ہونے سے پہلے ہی فارغ کر دیا ۔خوش قسمتی سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ اسے جلد ہی ہارورڈ، پریسٹن یا ایم آئی ٹی ( جہاں سے اس نے پی ایچ ڈی کی تھی) میں جاب ملنے والی ہے۔\”

علاوہ ازیں ان کی ماضی کی کارگزاریاں اور کارستانیاں کون سی کسی جاگتی آنکھ سے ڈھکی چھپی ہیں۔اب اگر ہم مُلّاں ملامت کے پیچھے چھپے ہاتھ کو ڈھونڈتے ہیں تو ہمیں یقینی طور پر تعصب میں اٹے جذبات کا بحر بیکراں دکھائی دے گا ۔ اس بحر ظلمات میں دو طرح کی موجیں محو مدو جزر رہتی ہیں ، ایک فلسفیانہ اختلافات کا ڈھیر اور دوسرے سائنس کی اوٹ ۔ لیکن ان سائنسیوں اور فلسفیوں کے ہاں ایک بات ضرور ہے کہ ان میں سچائی کی تلاش ۔۔۔۔بظاہر جذبات ، تقلید ، عقائد ، روحانیت اور ہر قسم کے بھروسے سے پاک لگتی ہے جو نسلی، لسانی، مذہبی ، علاقائی تعصب سے دِکھنے میں بالاتر مگر بڑی فراخ دلی اور جسارت سے ہر \”فرسودہ نظریہ حیات \” (ان کے تئیں) کا نہ صرف انکار کرنے کے لئے انہیں مکمل تیار کر دیتی ہےبلکہ اس کے ردّ و ابطال کا مبلغ بھی بنا دیتی ہے ۔ان متلاشیوں کی بڑی تعداد یا تو فلسفہ کی لفاظی اور خراشیدہ اشکالات سے متاثرہوتی ہے یا پھرسائنسیوں کی پرکھ کی کتھا سے ڈی ٹریک نفری ۔بہر کیف ہر دو طبقات اپنے اس \”مذہب \” کی تبلیغ اور مذاہب کے انکار و ابطال کے لئے انہی دیوار وں کے سائے میں بیٹھتے ہیں ۔

سائنس ، مذہب او ر فلسفہ کو جس تناظر میں لیا جانے لگا ہے وہ ایک فتنہ جدیدہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے بطن سے درج ذیل خیالات و رجحانات (اچھے یا برے) نے جنم لیا ہے :

٭          سائنسی علوم سے مذہب کی تشریح

٭          الہامی کتابوں سے سائنسی علوم کی مطابقت اورتضادات و تصادم کی بحث

٭          دینی مدارس سے سائنسی علم کی تحصیل کا مطالبہ

٭          سائنسی اور فلسفیانہ بنیادوں پر مذاہب کی تردید ، خداکے وجود اور آخرت کا انکار وغیرہ وغیرہ

٭          مذہبی وابستگی کی بنیاد پر سائنس و فلسفہ کی اہمیت کا انکار یا ان سے بے التفاتی و بے اعتناعی

٭٭        سائنس کا مذہب سےعملی تصادم

اگر ہم اول ، ثانی اور ثالث الذکر کا جائزہ لیں تو ہم اپنی بساط کے مطابق جن نتائج پر پہنچ سکیں ہیں وہ یہ ہیں:

 (1)۔سائنس کی ترقی نے الہامی کتابوں کے بارے میں جب یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کہیں مادہ، زندگی، اجرام فلکی اور کائنات سے متعلق الہامی حقائق و واقعات سائنسی علوم سے متصادم تو نہیں؟ تو حضرت انسان نے سائنس کے پیمانے میں ان کتابوں کو بھی تول ڈالا جن کی وہ مدتوں سے تعمیل کرتا چلا آ رہا تھا اور بالآخر کچھ نتائج بھی بر آمد کر لئے۔ ان تفصیلات میں جائے بغیر ہم یہاں پر صرف یہ جاننا چاہیں گے کہ موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس بہتی گنگا میں ملحدین نے کس طور حصہ لیا؟ اور یہی سائنسی چال آج تک کے لئے ان کا اول و آخر سہارا کیسے بنی ؟ لیکن اس سے پہلے یہ خوب سمجھ لیا جائے کہ سائنس کیا ہے؟ سائنس روایات پر مبنی کوئی مسودہ نہیں بلکہ حقائق کو تجربات کی بنیاد پر جاننے کا لامتناہی سلسلہ ہے جو ارتقائی وتدریجی ہے، یہاں کچھ حتمی نہیں کیوںکہ کسی تحقیق کو حتمی مان لینا اہمیت کےحامل بہت سے حقائق سےمحروم رہنےکےمترادف ہے اور یہی سائنس کی معراج ہے۔ سائنس بہت کچھ ہے لیکن سب کچھ نہیں مگر ہمارے کچھ سائنسی سائنس کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں بس یہی وہ مغالطہ ہے جو پرویز ھود بھائی او ر بہت دوسرے دیسی ودیسی سائنسیوں کو بھی لگا ہوا ہے۔ اس بحث میں اسی سائنسی کتھا کی طرف آتے ہیں تو کچھ متضاد صورتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

٭          اگر کوئی مسلم سکالر سائنسی اشکالات کا جواب دے یا مذہب (الہامی کتاب ) کی سائنس سے مطابقت کو بیان کرے تو اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ نہ وہ کوئی سائنس دان ہیں اور نہ ہی سائنسی بیک گراؤنڈ یا کرئیر رکھتے ہیں لہٰذا انہیں کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ سائنسی موضوعات کو چھیڑیں ۔ بات بالکل واضح ہے کہ جیسے ممکنہ طور پر ایک نیورولوجسٹ الیکٹریکل انجنیرنگ کے بارے میں بہت کم جانتا ہے یا با لکل نہیں جانتا اسی طرح عین ممکن ہے یہ بات ایک مذہبی سکالر کے بارے میں بھی صادق آتی ہو اور اسے قطعی اختیار حاصل نہ ہو مذہب کو سائنس کے تناظر میں دیکھنے کا ۔ کُل جہان میں اس کا جواز نہ ملا تو آخرمیں میری ھود بھائی سے ہی استدعا ہے کہ اس امر کا جواز میتھ میٹیکل فزکس سے ہی ڈھونڈ نکالیں کہ ایک فزسٹ کو یہ اختیار کہاں سے موصول ہوا ہے کہ وہ مذہب، سوشل سائنسز ، ما بعد الطبیعاتی موضوعات ………روحانیت و تصوف، پیرا سائیکا لوجی اور دیگر موضوعات پر بحث کرے؟ محترم آپ کو اپنے سائنسی مشاغل سے وقت نکال کر سائنسی آرٹیکل لکھنے چاہئیں چہ جائیکہ ان موضوعات پر ید طولی کے۔

٭          تصویر کے دوسرے رخ کو بھی دیکھ لیجیئے ، اگر انہیں کسی سائنسدان یا سائنسی بیک گراؤنڈ /کریئر کے حامل کا سامنا کرنا پڑ جائے تو اس کو انتہائی حقیر اور قابل تردید ثابت کرنے کے لئے اس پر مذہب کی تھاپ لگا دی جاتی ہے ۔ معاشرتی اور سیاسی مفادات کی لڑائیوں میں تو یہ ہتھکنڈا عام ہے کہ اگر مخالف کا کسی طور بھی مذہب سے تعلق جوڑا جا سکے تو پھر تھیو کریسی (ملّائیت ) کا ڈھول بجا کرباآسانی اپنے مؤقف پر تائید حاصل کی جا سکتی ہے ۔کیا؟ ایک مذہب پر یقین رکھنے والے سائنسدان کی تحقیقات محض اس بنا پر قابل تردید ہوں گی کیوں کہ وہ ایک مذہب کا ماننے والا ہے۔ نظریہ ارتقاء کے رَدّ میں تما م سائنسی دلائل اور ثبوت کو نہ قابل یقین ثابت کرنے کے لئے ایک انتہائی بودا اور گھٹیاقسم کا منفی ہتھکنڈا بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ ان تحقیقات کے کرنے والے سائنس دان کا مذہب سے تعلق ہے۔ اوریہ کہنا کہ سائنس کے ہاں مذہب کی رعایت نہیں کیوں کر درست ہو سکتا ہے اگر سائنس کی آڑ میں مذہب مخالفت اور مُلّاں ملامت وطیر ہ اپنایا جائے تو ؟اس نتیجے پر پہنچنے میں ہم حق بجانب ہوں گے کہ یہ محض ایتھی ازم کے سوا کچھ نہیں ۔

٭          سائنسی پرکھ سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن سائنسی سیکنڈل کہاں کی سائنس ہے محترم ؟ سراب کو دریا کرنے کے لئے اور کیا کیا کرنا باقی ہے؟ مسنگ لنکس سے نبردآزمائی میں سائنسی وقار اور تشخص کو پامال کرنے والوں نےکیا کیا گل نہیں کھلائے اور یہ سب کس لئے کیا جاتا ہے ؟DOWN MAN PILT  کا قضیہ ؟ جیمز ٹور نے ان سائنسی سیکنڈلز کے بارے میںScary Thing  کے الفاظ استعمال کر کے مسئلے کو حد درجہ سلجھا دیا ہے ۔

٭          یہ سوال کہ مدارس میں سائنسی تعلیم رائج ہو جہاں اپنے اندر بہت سے سوالات ، خدشات لئے ہوئے ہے وہاں افادیت کا حامل بھی ہے ۔ اس بحث میں ذرا بعد میں الجھیں گے پہلے یہ تو بتایا جائے جب احباب کرام کے تئیں (بادی النظر میں یا کھلے طور ) مذہب ایک دقیانوسیت ہی ہے تو دینی طلباء کو \’\’مدارس\’\’ میں … \”دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ \”……میتھ ، سائنس وغیرہ کی تعلیم کا درس دینا بلکہ اس پر اپنی سکالری کی بنیاد یں مضبوط کرنا ، کیا کھلم کھلا تضاد نہیں ؟ یا پھر یہ مطالبہ مان لینے کے بعد آپ اگلا پتا یہ پھینکیں گے کہ جناب آپ مذہب کی فرسودگی چھوڑئیے بس اس سے ہاتھ دھو بیٹھ کر سائنس کا دامن تھام لیجیئے یعنی،

                                                شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا

                                                کھا ڈبل روٹی خوشی سے پھول جا

اور افلاک ، ابلاغ دور افتاد رابطہ کمپنی لگا ئیے گا اور پھر دیکھنا چینی ، امریکی اور یورپی ہم سے پیپل ، ہم سنگ اور شوقیا موبائل خریدا کریں گے۔ساتدہایئوں میں ملکی پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر یونی ورسٹیز نے تحقیقات و ایجادات میں بڑے تیر مار رکھے ہیں جو اس میں رہی سہی کسراب مُلّاں نے پوری کرنی ہے۔ کیا اس کا قصور وار بھی مُلّاں ہے ؟ جو ابھی تک آپ آئندہ نسلوں کوایک\”یونی ورسٹی\”بھی نہیں دے سکے ہو ۔

(2)۔سائنس اور اسلام

سائنس کا ماحصل کیا ہے؟ کیاسائنس کائنات کی تسخیر کے مقصد کو سمجھ سکتی ہے یا محض فروع و جزیات تک محدود ہے؟ انسان نےکائنات کے بہت سے رازوں سے پردہ ہٹایا ہے ۔ اور خوب سے خوب تر کی جستجو نے آج کے انسان کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت بلند مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس سب کو سائنس کی ترقی تو کہہ سکتے ہیں لیکن انسانیت کی معراج نہیں کہہ سکتے۔ کیوںکہ سائنسی ایجادات محض کاروبار معاشرہ کی تمام تر ضروریات یعنی آرائش و زیبائش، انتظام و انصرام کی سہولیات، زرعی، ابلاغی، آمدورفت کی سہولیات، دفاعی اور دیگر شعبہ ہائے جات کی تمامتر ضروریات کے گرد محو گردش ہے۔ گویا ایسا ہی ہےجیسےایک مسافر منزل پر پہنچنے کی بجائے راستے کی تعمیر و تزین اورسفرمیں تلذذ و راحت کی فکر میں منہمک ہوجائےاورمنزل ومقصود کو یکسر بھول جائے ۔ تسخیر کائنات سے استفادہ دراصل اس کا فروع و جز ہے اس کو اصل قرار دینا حماقت ہےاوراس سے انکار جہالت ہے ۔ اسلام کاروبار معاشرہ کے لوازمات کی دستیابی و حصول کے لئے اسباب اور علم و فنون کے حصول کو نہ صرف مستحسن قرار دیتا ہے بلکہ ترک اسباب اور مذکورہ علوم و فنون سے بےاعتنائی کو جہالت قرار دیتا ہے۔ افراد اپنی اپنی بساط، دلچسپی، مفاد اورمعاشرے کی نت نئی ضروریات کے پیش نظر مختلف شعبہ ہائےجات کا چناؤ کرلیتے ہیں اور یہی کاروبار معاشرہ کا تقاضہ ہے۔ یعنی معاشرہ افراد سے تقسیم کی بنیاد پر ان امور کا متقاضی ضرور ہے لیکن تخصیص کی بنیاد پر ہرگز نہیں یعنی کسی فرد یا جماعت پر قدغن نہیں کہ وہ مخصوص شعبےکا چناؤ کرے۔ دور حاضر میں یہ تمام امورچوںکہ سائنس کی مرہون منت ہیں تو سائنس بھی کس فرد، جماعت، قوم یا نظریے سے تخصیصی بنیاد پر اپنے علوم و فنون کے حصول کا تقاضہ نہیں کرسکتی۔ اس اعتبار سے سعودی بھائیوں پر اعتراض کہ انہیں ان تمام تر سہولیات اور آسائشوں کے لئے ٹیکنالوجی کی تو ضرورت ہے لیکن سائنس کی نہیں ، اپنے اندر کوئی معنویت نہیں رکھتا ۔

اب رہے یہ سوال کہ کیا اب مدارس سے بھی سائنس دانوں کی کھیپ نکلا کرے گی؟ پرویز ھود بھائی کی اس سیخ پائی سے کیا اب علماء سائنسی میدانوں میں کود پڑیں گے ؟ان تمام تر سوالات کے پیچھے دراصل وہی سائنس فوبیا ہے جس کی وجہ سے سائنسی عدم توازن کا شکار ہیں لیکن ان کے جوابات سے قبل یہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ اب دینی طلبا بھی عصری میدانوں کا رخ کریں گے ؟ دیکھنا یہ ہے کہ علمائے سائنس مدارس میں سائنسی تعلیم کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟ کیا سائنسی علوم کی تحصیل مذہب کی تعلیم و تدریس اور اشاعت و تبلیغ کے لئے ناگزیر ہے؟ جہاں تک بنیادی ابتدائی سائنسی تعلیم کا تعلق ہے تو بات یقیناً سمجھ آتی ہے لیکن دینی طلبا کی تمام تر کھیپ کو ریاضی ، فزکس ، کیمسٹری ، بیالوجی اور کمپیوٹر کے میدانوں میں جھونک دینا مذہب کے ساتھ محض کھلی دشمنی ہی ہو سکتی ہے۔ یہ عین اس طرح ہے جیسے تمام سول انجنیرز کو نیورولوجی پڑھانے کی حماقت۔ اگر ایسا ہو بھی تو کیا یہ معاشرے میں عدم توازن پیدا کرنے کی احمقانہ چال نہ ہو گی؟ اگر ان کو اس طرف ہانک بھی دیا جائے تو پیشہ ورانہ مہارتوں سے لیس سول انجنئرز کے فقدان بلکہ ناپیدگی کی صورت میں کیا سول انجنئرنگ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے نیورولوجسٹس کو سول انجنئرنگ کی ترغیب دی جائے گی؟ اور پھر ان کے ایسا نہ کرنے پر اسی قسم کی ایک اور موومنٹ لانچ کی جائے گی؟ اگر یہ حماقت ہے اور یقیناً ہے تو آپ کا مطالبہ کیا ہے؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments