پاکستان میں تحقیق کی اہمیت و ضرورت


علم و تحقیق کو پوری دنیا میں معاشی خود مختاری و ملکی سالمیت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد پاکستان کو نا تو وراثت میں علم و تحقیق کے معیاری ادارے مل سکے اور نا ہم نے اپنے تئیں میسر تعلیمی اداروں اور تحقیقی رجحان کو فروغ دیا جس کا نتیجہ ہم بگڑتی ہوئی معیشت، بیروزگاری اور درآمدات اور برآمدات میں بہت زیادہ فرق کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا ملک بے پناہ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ہونے کے باوجود اقوام عالم کے خود مختار ممالک کی صف میں کہیں کھڑا نظر نہیں آتا، جس کی کچھ دوسری وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ تعلیم و تحقیق اور خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق سے نا واقفیت ہے۔

آج دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی مثال لے لیجیے، آپ کو کوئی ایسا ملک نہیں ملے گا جس نے یہ مقام سائنس اور ٹیکنالوجی پہ توجہ دیے بغیر حاصل کیا ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان میں جامعات اور تحقیقی اداروں کی تعداد میں اضافہ تو کیا گیا، مگر سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق کی ضرورت اور اس کے لیے درکار رقوم سے متعلق ہمارے اقدامات سطحی ہی رہے۔ سال 2002 ء میں حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نام سے پاکستان میں جامعات اور تحقیقی اداروں کی مالی معاونت کے لئے ایک ادارہ بنایا جو ایک احسن اقدام تھا اور جس نے شروع میں بڑی تیزی سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق کے فروغ کے لیے کچھ منصوبوں پر کام شروع کیا۔ اس کا نتیجہ پاکستانی جامعات میں پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد میں اضافے اور تحقیقی رجحان میں قدرے بہتری کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی جرائد میں تحقیقی مقالہ جات میں بے پناہ اضافے کی صورت میں نکلا۔

اس ضمن میں اگر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے اٹھائے جانے والے یہ اقدامات منزل کی طرف ابھی نقطۂ آغاز تھا۔ آنے والے سالوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترویج کے لئے اٹھائے جانے والے یہ اقدامات ماند پڑتے گئے اور ایک دفعہ پھر جامعات اور تحقیقی اداروں کو مالی معاونت میں بتدریج کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے ہاں ارباب اختیار شاید بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور احسن منصوبوں میں پائی جانے والی خامیوں کی تشخیص کر کے ان کو دور کرنے کی بجائے منصوبوں کو بند کرنے یا ان کی مالی معاونت قلیل کرنے ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم گھوم پھر کر نقطۂ آغاز پر جا پہنچتے ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق ملکی ترقی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے اور اس کی ترویج کی خاطر شروع کیے گئے منصوبوں کے مثبت نتائج آنا، ایک طویل اور بتدریج عمل ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے منصوبوں میں پائی جانے والی کچھ خامیوں کی تشخیص کی جانی چاہیے اور ان کو دور کر کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے منصوبوں کی مالی معاونت کئی گنا بڑھائی جانی چاہیے، تا کہ ملک کو معاشی ترقی اور خود مختاری کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر جامعات میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اساتذہ کی ترقی کو زیادہ سے زیادہ مقالہ جات کی اشاعت سے جوڑ دیا ہے، جس سے غیر معیاری اور نا مکمل تحقیق کی اشاعت عام ہو گئی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پالیسی پر نظر ثانی کر کے اساتذہ کو ملکی مسائل پر تحقیق کی آزادی اور مالی معاونت اس طرح فراہم کی جائے کہ ان پر بہت زیادہ اور جلدی اشاعت نا کرنے کی صورت میں نوکری سے برخاست کرنے کا دباو نا ہو۔ ملک میں ایک سائنس اور ٹیکنالوجی پارک بنایا جائے، جس میں پاکستان سے اور دنیا بھر سے اپنے شعبوں کے نامور محقق بہترین سہولتوں اور معاوضے پر رکھے جائیں اور ان کو ملکی ضرورت کے مطابق تحقیقی اہداف دیے جائیں۔

ملک میں اعلیٰ تعلیم کو انتہائی مہنگا کر کے گورنمنٹ اور پرائیویٹ مالی معاونت سے منسلک کیا جانا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل ایجوکیشن کو انتہائی سستا اور عام کیا جائے تا کہ سنجیدہ لوگ ہی تحقیق میں آئیں اور باقی ہنر حاصل کریں۔ امید ہے ارباب اختیار سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق کی ترویج میں دل چسپی لیتے ہوئے ملکی خود مختاری کی طرف پیش قدمی کریں گے، کیوں کہ یہی وہ شاہ راہ ہے جو سوئے منزل جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments