ریاست مدینہ کے داعی سے ایک پرائیویٹ اسکول ٹیچر کی اپیل


جناب وزیر اعظم پاکستان

مسند اقتدار پر بیٹھے آپ کیا جانیں، تین ماہ کے لاک ڈاؤن کی اذیت کیا ہے، لیکن اگر فرصت ملے تو قوم کی بیٹی کی اس فریاد اور داستان کرب کو پڑھ لیں۔

ہم دو بہنیں ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ دونوں بہنوں کی ماہانہ تنخواہ ملا کر 30 ہزار تھی۔ اس سے دس ہزار گھر کا کرایہ دیتے تھے، دو ہزار دادی اماں کی دوائی کے لیے رکھتے تھے، تین چھوٹے بہن بھائیوں کی اسکول فیس، جیب خرچی کے تین ہزار رکھتے تھے، باقی کے 15000 سے پورا مہینہ گزارا کرتے تھے، سبزی اور بجلی بل کے لیے گھر پر پانچ ہزار کی ٹیوشن پڑھایا کرتی تھیں۔

میرے والد کی بھی کوئی ریگولر جاب نہیں ہے، کبھی مزدوری لگ جاتی تھی کبھی نہیں تھی، لیکن پچھلے تین ماہ سے گھر پر بیٹھے ہیں۔ آپ کے دور اندیشانہ فیصلے، کورونا کو پھیلنے سے تو نہیں روک سکے لیکن ہماری چھوٹی سے خوشیوں کو یقیناً برباد کر گئے ہیں۔

کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ریاست مدینہ میں ایسا وقت بھی آئے گا، رعایا بھوک سے خود کشی کرنے پر مجبور ہو گی، بیٹیوں کی عزت کی بولیاں لگیں گی اور راعی اپنی زوجہ کے ساتھ نتھیا گلی کی سیر کر رہا ہو گا۔

ہم سندھ کے لوگ تو ویسے ہی بے حس حکومت میں رہ رہے ہیں، جہاں غریب کو روٹی کپڑا مکان کا نعرہ تو دیا جاتا ہے لیکن اصل میں ان سے جینا چھینا جاتا ہے۔

آپ کے وعدوں اور اماں کے مرشد طارق جمیل کے شاہانہ قصیدوں سے سوچا شاید عمر بن عبدالعزیز کا دور لوٹ کے آیا ہے، لیکن جو ہم پر قیامت گزر رہی ہے اس کے بعد سمجھتی ہوں اس سے تو برطانیہ کی غلامی بہتر تھی۔ تین ماہ سے تنخواہ بند، ٹیوشن بند، بابا کی مزدوری بند، بس گھر کے اثاثے بیچ کر گھر کا کرایہ دے رہے ہیں۔ اثاثے بھی کیا اماں کو جہیز میں ملنے والا آدھا تولہ سونا۔ غربت دیکھ کر دادی اماں نے دوا لینے سے انکار کر دیا اور یوں پندرہ روز کے بعد ایک فیملی ممبر کا آٹا اور دو ہزار کی دوا کے پیسے بچ گئے۔

رمضان المبارک میں پانی ہی سب سے بڑی نعمت تھی، اماں چھوٹے بہن بھائیوں کو باہر جانے نہیں دیتی تھیں کہ کہیں پڑوسیوں کے گھروں کے سامنے فروٹ کے چھلکے دیکھ کر بچے ضد نہ کریں، بچے تو بچے ہوتے ہیں وہ کیا جانیں والدین پر کیا بیت رہی ہے۔ چھوٹے بہن بھائیوں کے عید کپڑوں نے خاصہ پریشان رکھا، اماں کو بھیجا کہ پڑوس سے اگر سلائی کے کپڑے مل جائیں تو سلائی کر کے چھوٹوں کو عید سوٹ دلوائیں، لیکن وہاں سے بھی مایوسی ہوئی۔

مایوس ہو کر اسکول مالک سے رابطہ کیا، انہوں نے تین ماہ کا فیس ریکارڈ دکھایا تو ریکوری صفر تھی۔ میں چپ چاپ اٹھنے لگی تھی تو انہوں نے پانچ ہزار روپے دیتے کہا بیٹا حالات یہ ہیں کہ قرضہ کے اوپر قرضہ لے کر کرایہ دے رہے ہیں۔ پاکستان کے لاکھوں پرائیویٹ اسکولز کا یہی احوال ہے، سترہ لاکھ اساتذہ نہیں سترہ لاکھ خاندان فاقہ کشی میں مبتلا ہیں۔ اے ریاست مدینہ کے داعی، اب تو عزت کے علاوہ کچھ بیچنے کو بچا ہی نہیں ہے۔

مالک مکان کو جب گھر کے باہر للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے پاتی ہوں تو دل کرتا ہے زمین جگہ دے دے اور زمین کے اندر دھنس جاؤں، لیکن سوچتی ہوں کہ یہاں تو خواتین کی لاش بھی محفوظ نہیں ہے۔ اے ظل الہی! اگر دل رکھتے ہو تو قوم کی بیٹی کی اس فریاد پر خدارا ذرا غور کرنا۔

ملک میں سترہ لاکھ پرائیویٹ اسکول ٹیچرز بے روزگار ہوئے ہیں، شاید ہر گھر کی یہی کہانی ہو، ہم ایسے پیشے سے وابستہ ہیں کہ نہ تو ہاتھ پھیلا سکتے ہیں اور نہ ہی امداد کے لئے لائن میں کھڑے ہوسکتے ہیں، ہماری سفید پوشی کا بھرم رکھنا۔

سنا ہے کہ چیف جسٹس بار کے لیے فی وکیل 12000 روپے دلواتے ہیں لیکن قوم کے ان معماروں کا کسی نے نہیں سوچا۔ نہ تو ہمارے ایم پی ایز، ایم این اوز کو کبھی خیال آیا اور نہ تو کسی وزیر کبیر نے کبھی بیان دیا۔ کیونکہ ہم الیکشن میں کام آنے والے مہرے نہیں ہیں اور نہ ہی کالی وردی والوں کی طرح ججوں کے حق میں نعرے لگانے والے ہیں۔

میں قوم کی بیٹی آپ کی خدمت میں ان سترہ لاکھ خاندانوں کی فریاد رکھتی ہوں، تمام پرائیویٹ اسکول ملازمین کو لاک ڈاؤن کے دوران میں قرض حسنہ کے طور پر ماہانہ الاؤنس دیا جائے، تا کہ کوئی بیٹی بھیڑیوں کے نذر ہونے سے بچ جائے۔

اے داعی ریاست مدینہ، اگر یہ نہیں کر سکتے ہو تو ایک کام کریں، ہمیں چھے فٹ زمین کا ٹکڑا دیا جائے جہاں سکون سے سو سکیں، اور مرنے کے بعد کسی کی درندگی کا شکار نہ ہو سکیں۔
آپ کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(باشعور قومیں تو ہمیں معمار قوم کہتی ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں یہ آپ پر چھوڑتی ہوں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments