جب بھارتی فوج علاقہ سرینڈر کر گئی ۔ بھارت سرکار بے خبر رہی


لداخ کے لہیہ قصبہ کے مکین بزرگ نوانگ زیرنگ ایک چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا تھے۔ دس سال قبل جب لہیہ میں ان سے ملاقات ہوئی، تو وہ اپنی عمر نوے سال بتارہے تھے۔ چند برس قبل انکا انتقال ہوا۔ اس پیرانہ سالی میں وہ 1962ء کی بھارت،چین جنگ کے قصے کچھ ایسے بیان کرتے تھے ، جیسے کل کے واقعات ہوں۔ ان کی بات چیت تاریخ کے کچھ ایسے دریچے کھول دیتی تھی، جو صفحات پر آنے سے قاصر رہے ہیں۔ اس جنگ کے دوران انہوں نے دولت بیگ اولدائی کے مقام پر بھارتی فوج کیلئے پورٹر اور گائیڈ کا کام کیا۔ ہ

مالیہ اور قراقرم کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کے درمیان دولت بیگ اولدائی ایک وسیع و عریض بے آب و گیاہ سرد ریگستان ہے۔ موسم گرم کے بس چند ماہ اس میدان میں گھاس اور پھول دکھائی دیتے ہیں، ورنہ اس کی سطح کہر اور برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ سولہویں صدی میں جب کشمیر اور وسط ایشیا کے درمیان روابط عروج پر تھے، تو یارقند کے اولدائی قبیلہ کے ترک امیر سلطان سعید خان عرف دولت بیگ اور اسکا قافلہ جب کشمیر اور لداخ پر فوج کشی کے بعد واپس جا رہا تھا کہ اس مقام پر برفانی طوفان نے ان کو آگھیرا۔

چار صدی بعد برطانوی سرویئر جنرل والٹر لارنس پیمائش کیلئے اس علاقہ میں پہنچا تو وہاں انسانوں اور جانوروں کی ہڈیاں بکھری نظر آئیں۔ مقامی افراد نے اس کو بتایا کہ یہ دولت بیگ اولدائی کے قافلہ کی باقیات ہیں۔ ان کو دفن کرنے کے بعد لارنس نے اس وسیع و عریض میدان اور اسکے اطراف کا نام دولت بیگ اولدائی رکھا۔ اس علاقہ میں جاڑوں میں درجہ حرارت منفی 55 ڈگری تک گر جاتا ہے۔ یہاں سے چینی سرحد بس آٹھ کلومیٹر کی دوری پر ہے اور سب سے قریبی انسانی آبادی سوکلومیٹر دور مورگو گاوٗں ہے، جہاں بلتی نسل کی آبادی ہے اور بھاری تعداد میں بھارتی فوج ہے۔

خیر زیرنگ کا کہنا تھا کہ کہ 1962ء میں وہ اس علاقہ میں 14جموں و کشمیر ملیشیا (اب اس کا نام جموں و کشمیر لائٹ انفینٹری ہے) اور پانچویں جاٹ رجمنٹ کے ساتھ بطور گائیڈ و پورٹر منسلک تھا۔ اس علاقہ میں بھارتی فوج کا بٹا لین ہیڈ کوارٹر بھی تھااور اس کے آس پاس 21فوجی چوکیاں قائم کی گئی تھیں۔ اکتوبر میں جنگ چھڑ چکی تھی، مگر دولت بیگ کا علاقہ ابھی تک محفوظ تھا۔ 20اکتوبر کے آس پاس دوری پر قزال ، جلگا اور چاپ چپ وادی میں چینی فوج کے داخل ہونے کی خبریں موصول ہوئی۔

ابھی تک دولت بیگ کی طرف ان کے کوچ کی کوئی خبر نہیں تھی۔ مگر 23اکتوبر کی ٹھنڈی صبح جب زیرنگ بیدا ہوا ، تو دیکھا کہ پورا بٹالین ہیڈ کوارٹر ہی خالی ہے۔ کسی جنگ کے بغیر ہی لیفٹنٹ کرنل نہال سنگھ اور میجر ایس ایس رندھاوا کی قیادت میں فوج نے پسپائی اختیار کی تھی۔ ان کو اندازہ تھا کہ چپ چاپ وادی کے بعد چینی فوج دولت بیگ تک ضرور آجائیگی۔ تاہم وزارت دفاع کی ہسٹری ڈویژن میں 480صفحات پر مشتمل اس جنگ پر مبنی دستاویز (جس پر ابھی بھی محدود اور اسکرٹ کا ٹھپہ لگا ہوا ہے)میں لکھا ہے کہ اس علاقہ پر چینی فوجوں نے حملہ کیا اور کئی چوکیوں پر قبضہ بھی کیا۔

پھر بھارتی فوج کی بٹالین نے سبھی جنگی آپریٹنگ طریقہ کارں کو روبہ عمل لاتے ہوئے راشن ، بھاری ہتھیار اور امیونیشن ڈپو کو تباہ کرتے ہوئے بہادری کے ساتھ 22 اکتوبر کی رات پسپائی اختیار کی۔ بزرگ زیرنگ کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ پسپائی کی کچھ ایسی جلدی تھی ، کہ کسی نے بھی اس پورٹر اور گائیڈ کو جگانے کی زحمت نہیں کی۔ اور تو اور جن ٹرکوں پر و ہ فرار ہورہے تھے، چند میل کے فاصلہ پر رات کے اندھیرے میں وہ ایک برفانی جیل میں پھنس گئے۔دن کا انتظار کرکے ان کو ٹھیک کرنے کے بجائے ، فوج نے پیدل ہی مورگو کی طرف مارچ کیا، جہاں سے ان کو لہیہ لے جایا گیا۔ نہال سنگھ اور رنڈھاوا نے وہاں بیان درج کروایا کہ دولت بیگ پر چینی فوج کا قبضہ ہو چکا ہے۔

اگلے سات ماہ تک زیرنگ نے اس علاقہ میں اکیلے زندگی گذاری۔ چونکہ راشن اور ایندھن وافر مقدار میں تھا، اسلئے کھانے پینے کی کوئی دقت نہیں تھی۔ اکیلے پن اور کسی انسانی وجود کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ کسی وقت دعا مانگتا تھا کہ کاش چینی فوج آکر اسکو جنگی قیدی ہی بنا ڈالے۔ موسم بہار کی آمد تک جب کسی نے اس علاقہ کے سدھ بدھ نہیں لی، تو اس نے پیدل مارچ کرنا شروع کیا۔ شاید دو دن متواتر پیدل مارچ کرنے کے بعد نیچی پرواز کرتا ہوا ایک ہیلی کاپٹر نظر آیا، جس کو و ہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کامیاب ہوا۔

ہیلی کاپٹر میں موجود بھارتی فضائیہ اور خفیہ محکمہ کے افراد بھی اکتوبر 1962میں ہوئی جنگ میں چینی دراندازی اور علاقہ پر قبضہ کی نوعیت کا پتہ لگانے کے مشن پر تھے۔ زیرنگ کی اطلاع پر وہ بھی حیران تھے، کیونکہ سرکاری فائلوں میں دولت بیگ پر چینی قبضہ دکھایا گیا تھا، جبکہ پورٹر کے بیان کے مطابق اس علاقہ میں چینی فوج آئی ہی نہیں تھی۔ آخر چینی افواج نے دولت بیگ کو اپنے قبضہ میں کیوں نہیں لیا ہنوز ایک معمہ ہے۔ یہ وسیع و عریض میدان ایک طرح کا قدرتی ہوائی مستقر ہے۔

بھارت فوج اب اس کو ہوائی پٹی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ بہر حال آج کل ایک بار پھر بھارتی اور چینی افواج لداخ اور شمال مشرق میں سکم و اروناچل پردیش کے علاقوں میں آمنے سامنے ہیں۔2013ء کے دیپ سانگ واقعہ کے بعد اس طرح کے واقعات متواتر پیش آرہے ہیں۔ برف پگلنے کے بعد دونوں ملکوں کی افواج پیٹرولنگ کیلئے نکلتی ہیں۔ چونکہ علاقے میں بارڈر کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے، اس لئے فوجیں متنازعہ علاقوں کی پیٹرولنگ کرکے اس پر علامتی حق جتاتی ہیں۔ چند برسوں سے جیسے 2014ء میں چمور اور 2017ء میں ڈوکلام کے مقام پر چینی افواج نے صرف پیٹرولنگ کے بجائے باضابط ڈیرا ڈال کر چوکیاں بنائی۔

بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار بھی چینی دراندازی کا انداز بالکل مختلف ہے اور وہ کسی بھی صورت میں واپس جانے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ 2013ء کے بعد سے چینی برتاو میں تبدیلی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ ہے کہ چالیس سال سے جاری مذاکرات کا کوئی سرا نظر نہیں آتا ہے، اور اس سے بھی بڑی وجہ جولائی 2011ء میں کاشغر میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکے ہیں، جن کے تار بھارت میں پائے گئے۔

بھارتی کابینہ میں موجودہ وزیرجنرل (ریٹائرڈ) وی کے سنگھ جب 2010ء میں من موہن سنگھ کی وزارت اعظمیٰ کے دور میں فوجی سربراہ مقرر ہوئے ، تو انہوں نے ایک انتہائی خفیہ یونٹ ’ٹیکنیکل سروسز ڈویژن‘(ٹی ایس ڈی) تشکیل دیا۔ مئی 2012ء میں وی کے سنگھ کی سبکدوشی کے فوراً بعد جب نئے آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے ٹی ایس ڈی کو تحلیل کرکے اس یونٹ کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک محکمانہ انکوائری کا حکم دیا، تو حکومت کے ہوش اڑ گئے۔

ملٹری آپریشن کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ونود بھاٹیہ کی قیادت میں تقریباً ایک سال کی عرق ریزی کے بعدانکوائری کمیٹی نے ہوش رْبا انکشافات پر مشتمل ایک رپورٹ جولائی میں آرمی چیف کے سپرد کی اور اسے انتہائی خفیہ رکھنے کی تاکید کی۔(جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments