ای لرننگ- ہایر ایجوکیشن کے نئے دور کا آغاز


دنیا بھر میں کرونا وائرس کے پھیلتے ہی جو اقدام سب سے پہلے اٹھائے گے ان میں سے ایک قدم سکول، کالجز اور جامعات کی بندش تھا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ بجائے تعلیمی عمل کو روکنے کے اسے مکمل طور پر ورچویل کر دیا جائے۔ آن لائن کلاسز کے ذریعے طالب علموں کو ان کے گھر بیٹھے پڑھایا جائے۔ یہ کوی نیا طریقہ تعلیم نہیں۔ اسے ای لرننگ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ورچویل یونیورسٹی ای لرننگ کے تحت ہی ملک کے طول و عرض میں تعلیم فراہم کرتی ہے۔ یہ طریقہ تعلیم روایتی یونیورسٹییز میں مکمل طور پر رایج نہیں ہوتا۔ البتہ دنیا جدید میں روایتی طریقہ تعلیم میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے جدت لای گی ہے۔ اسمارٹ کلاس روم، ای اٹینڈنس اور آن لائن امتحانات اس جدت کی چند سادہ مثالیں ہیں۔

کرونا وائرس کے پھیلتے ہی ترقی یافتہ ممالک اور کچھ ترقی پذیر ممالک نے بھی اپنی جامعات کو مکمل طور پر ای لرننگ سسٹم پر منتقل کر دیا۔ چونکہ وہاں یہ نظام پہلے سے موجود اور نافذالعمل تھا اس وجہ سے وہاں پر اتنی زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں ہوا۔ مگر پاکستان کی صورتحال کچھ ہٹ کر ہے۔ جب یہاں پر ہایر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے ای لرننگ کا فیصلہ کیا تو بدقسمتی سے یہاں پر جامعات کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی تھی جن کے پاس ایسا کوی سسٹم موجود نہیں تھا۔

جن چند جامعات کہ پاس یہ سہولت موجود تھی تو وہاں پر نافذالعمل نہیں تھی۔ اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایچ ای سی نے جامعات کو اپنے ای لرننگ سسٹم بنانے کا کہا۔ اور یہ بھی ہدایت جاری کی گی کہ اس سسٹم پر ٹیچرز کی ٹریننگ بھی کروای جائے۔ یہ ایک نہایت مشکل اور اعصاب شکن مرحلہ تھا۔ مگر ہماری جامعات داد کی مستحق ہیں کہ جنہوں نے دو ماہ میں وہ کام کر دکھایا ہے جو ستر سال میں ممکن نہیں ہوسکا۔ اس کے لیے جامعات کو کوی علیحدہ سے فنڈز بھی میسر نہیں ہوئے۔

دو ماہ کی قلیل مدت میں ایک ای لرننگ سسٹم کو بنا کر اس کو فنکشنل کر دینا ہی پاکستان کی ہایر ایجوکیشن کی تاریخ میں ایک سنہرا اضافہ ہے۔ تمام تر خدشات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے ہمیں چیرمین ایچ ای سی ڈاکڑ طارق بنوری اور تمام جامعات کے سربراہان کو مبارکباد دینی چاہیے۔ خصوصی طور پر وہ پروفیسر صاحبان اور تکنیکی عملہ جنہوں نے اپنی ان تھک محنت سے اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

یکم جون سے پاکستانی ہایر ایجوکیشن کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ ہمارے ہاں ٹیچرز کی ایک بڑی تعداد اس سے پہلے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو کلاس روم میں بروئے کار نہیں لاتی تھی۔ ای لرننگ سسٹم کے آ جانے کہ بعد ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا اور وہ بہتر انداز سے درس و تدریس کا عمل جاری رکھ سکیں گے۔ طالب علموں کی طرف سے جو سب سے بڑا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے وہ دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ کی رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب طلبا کہ پاس کمپویٹر یا لیپ ٹاپ کا نا ہونا ہے۔ ان دو مسایل کو اگر یونین کونسلز کی سطح پر ای لائبریریاں بنا کر حل کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے مگر ناممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments