ہم اپنے محسن نہیں پہچانتے


یہ بحث بہت عرصے سے چلی آ رہی ہے کہ آخر ایٹمی دھماکے کس کی بدولت ہوئے اور پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں کس کا کردار تھا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سب ذوالفقار علی بھٹو کے ڈٹ جانے کا نتیجہ ہے، بعض اس کا کریڈٹ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو دیتے ہیں جبکہ بعض لوگ اس کو نواز شریف کی وفاداری کا ثبوت کہتے ہیں۔

سچ جاننے کے لیے میں نے تاریخ کے پنوں کو الٹانے کا سوچا، حقیقت سے آشنا ہونے کے لیے ہمیں ماضی میں لوٹنا پڑے گا۔

صاحب زادہ یعقوب خان ( مرحوم ) اکثر کہا کرتے تھے ”اگر بھارت کے پہلے ایٹمی تجربے کے وقت امریکہ ایک ذمہ دار کردار ادا کرتا تو پاکستان کبھی ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نام تک نہ سنتا“

پاکستان نے دو مرتبہ انتظار کیا کہ امریکہ اور مغربی ممالک ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو خطے میں اسلحے کی دوڑ شروع کرنے سے روکے، مگر ان ممالک کی غیر ذمہ دارانہ  پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کے پاس ایٹمی تجربے کے علاوہ کوئی چارہ نہ بچا۔

پاکستان کا جوہری پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ ملتان میں نواب صادق حسین صاحب کی رہائش گاہ پر لیا گیا، اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے یہ ملاقات بلائی تھی جس میں ملک کے نامور سائنسدانوں کو مدعو کیا گیا تھا، اس تاریخی ملاقات کو ”ملتان میٹنگ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس تاریخی ملاقات میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی شریک تھے، ان کے مطابق بھٹو صاحب نے اس ملاقات میں چند تاریخی الفاظ کہے، ان کا کہنا تھا، ”ایمان نے مجھے ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں میں ایسے فیصلے کرنے کے قابل ہوں جن سے ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں لے جایا جا سکے گا“ ۔

بھٹو صاحب نے اس میٹنگ میں موجود سائنسدانوں سے سوال کیا کہ کیا ہم جوہری بم بنا سکتے ہیں، جس کا انھیں مثبت جواب ملا، اس پر بھٹو صاحب نے پوچھا کہ ”یہ کام ہم کتنے وقت میں انجام دے سکتے ہیں“ ، جواب میں انھیں ”پانچ سال“ کا وقت بتایا گیا جس پر بھٹو صاحب نے تین انگلیاں اٹھائیں اور اور کہا کہ ”تین سال“ ، جس پر تمام سائنسدانوں نے رضا مندی کا اظہار کیا اور اس پر بھٹو صاحب نے کہا ”یہ ایک انتہائی اہم سیاسی فیصلہ ہے جو پاکستان کرنے جا رہا ہے اور شاید ایک دن باقی ممالک کو بھی کرنا پڑے“ ۔

بھٹو صاحب کے جارحانہ انداز سے کون واقف نہیں، ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کو اس تجربے کے بارے میں بتایا تو ایوب خان نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور ہم اتنے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے جس پر بھٹو صاحب کے یہ چند بول تاریخ کا حصہ ہیں، ان کا کہنا تھا ”اگر بھارت بم بنائے گا تو ہم گھاس کھائیں گے، یہاں تک کہ بھوکے بھی رہ لیں گے جب تک کہ ہم خود کا ایٹم بم نہ بنا لیں، ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں ہے“ ۔

شاید بھٹو صاحب کا یہی جارحانہ انداز اور اپنی قوم کے ساتھ کی گئی وفا ہی تھی جو ان کو پھانسی کے پھندے تک لے پہنچی، ان کی شہادت کے بعد پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبد القدیر خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو جیسا قوم پرست ساری زندگی نہیں دیکھا۔

ڈاکٹر عبد القدیر کا کہنا تھا کہ انھوں نے بھٹو صاحب کی جان بچانے کے لیے ترکی سمیت تمام اسلامی ممالک سے رابطے کیے، ترکی کے صدر نے ان کو یقین دلایا کہ وہ ضیاالحق سے بات کریں گے اور ساتھ ہی ان کو خبردار بھی کیا کہ ضیا بھٹو کو نہیں چھوڑے گا۔

پاکستان کو جوہری ریاست بنانا ایک قومی فیصلہ تھا اور اس خواب کی تکمیل کے لیے بھٹو صاحب نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ایک وزیراعظم جتنی طاقت دے رکھی تھی۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان کے مطابق بھٹو کا خواب 80 کی دہائی میں ہی پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا اور اس کے بارے میں جنرل ضیاالحق کو بھی آگاہ کیا گیا تھا، اس تجربے کے لیے انھیں صرف ایک اشارے کی ضرورت تھی مگر افسوس کہ بیرونی دباؤ کی وجہ سے ضیاء الحق اجازت نہ دے سکا۔

بی بی سی ( اردو ) کی تازہ رپورٹ کے مطابق ضیاء الحق بیرونی ممالک کو یقین دہانی کرواتا رہا کہ پاکستان ایٹمی تجربات نہیں کرے گا۔

بھارت کے دوسرے ایٹمی تجربے کے بعد بالآخر سن 1998 کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف صاحب نے ایٹمی تجربات کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کیا، بل کلنٹن کی طرف سے ان کو روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور بقول میاں صاحب 5 ارب ڈالر کا لالچ بھی دیا گیا مگر اس کے باوجود نواز شریف اپنے فیصلے پر قائم رہے۔

جب اس کے بعد بھی نواز شریف نے امریکہ کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا تو ان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں، اس کے باوجود نواز شریف صاحب نے دلیرانہ قدم اٹھایا اور بالآخر 28 مئی، 1998 کو پاکستان نے بھارت کے 5 کے مقابلے میں 6 ایٹمی دھماکے کیے اور یوں پاکستان دنیا کا ساتواں جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک بن گیا۔

سیاسی ماہرین کے مطابق یہی وجہ تھی کہ سن 1999 کو ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا کر مارشل لاء نافذ کیا۔

چند دن پہلے سینئیر تجزیہ نگار خفیظ اللہ نیازی صاحب کا کہنا تھا کہ 1999 میں نواز شریف کو ایٹمی دھماکوں کی سزا دی گئی تھی اور 2017 میں سی پیک کی سزا دی گئی تھی جو آج تک قائم ہے۔

اس سب کے بعد ڈاکٹر عبد القدیر خان کا کیا حال کیا گیا، وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کو ایٹمی ریاست بنانے میں ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور ڈاکٹر عبد القدیر خان، تینوں کا ایک منفرد مگر جامع کردار ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم کبھی اپنے حقیقی محسنوں کی پہچان ہی نہیں کر پائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments