میاں شہباز شریف گرفتاری کیوں نہیں دیتے؟


مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر  شہباز شریف نیب کی  ہر ممکن کوشش اور خواہش کے باوجود  گرفتار نہیں کئے جاسکے ۔  آج لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے   دو ہفتے  کے لئے  ان کی  عبوری ضمانت   قبول کر تے ہوئے نیب کو فوری طور سے شہباز شریف کی گرفتاری سے روک دیا ۔   یہ بات تو  قابل فہم ہے کہ قومی احتساب بیورو  کیوں شہباز شریف کو گرفتار کرنے کے  لئے بے چین ہے لیکن شہباز شریف  آخر گرفتاری دے کر   نیب کا اصل چہرہ سامنے لانے   سے کیوں کترا رہے ہیں؟

لاہور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں نے نیب پر سخت تنقید کی اور واضح کیا کہ  نیب  دراصل سیاسی مقاصد کے لئے کام کررہی ہے۔   نیب کے کردار اور اپوزیشن لیڈروں کے خلاف اس کی کارگزاری کے حوالے سے  شدید شبہات موجود ہیں ۔  دیگر اہم معاملات  کی طرح اس اہم سوال پر بھی قوم کی رائے البتہ  تقسیم ہے۔ تحریک انصاف کا  حامی گروہ دل و جان سے یہ مانتا ہے کہ نیب کے ذریعے جس بھی اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کیا جاتا ہے، وہ درست اور جائز فیصلہ ہے کیوں  کہ ان کے لیڈر عمران خان نے انہیں چور لٹیرا قرار دیا ہے۔ بدقسمتی  یا خوش قسمتی سے  عمران خان گو کہ ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن انہیں چین  کی کمیونسٹ پارٹی  یا سعودی عرب کے ولی عہد کی طرح مخالفین کو گرفتار کرکے  جیلوں میں بند کرنے یا  بندوق کی نوک پر کثیر رقوم ادا کرنے پر مجبور کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

 عمران خان خود متعدد بار ایسے  اختیارات  کی کمی  پر کف افسوس مل چکے ہیں اور بتا چکے ہیں کہ پاکستان میں بھی چین یا سعودی عرب جیسا ’انصاف‘ اسی وقت فراہم ہوسکتا ہے جب انصاف کے ویسے ہی ہتھکنڈے  یہاں کے حکمرانوں کو بھی حاصل ہوں گے۔  کپتان کی یہ شدید خواہش البتہ پوری ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔  اس کی جزوی وجہ تو یہی ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کسی بھی اہم قومی مسئلہ کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔  ان کی سیاست حکمت عملی یا ٹھوس اقدامات کی بجائے نعروں، نفرت اور اپوزیشن  کی کردار کشی کے منصوبے پر استوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے دوران ایک کروڑ لوگوں کو روزگار اور پچاس لاکھ لوگوں کو گھر فراہم کرنے کا وعدہ بھلایا جاچکا ہے۔   اقتدار سے پہلے  ملک کے معاشی مسائل کا ذمہ دار سابقہ حکمرانوں کی  بدعنوانی کو قرار دیا جاتا تھا لیکن  دو سال تک حکومت کرنے کے باوجود جب   معاشی بہتری کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکا تو کورونا وائرس سے  سامنے آنے والے بحران کی آڑ میں   اپنی   بے عملی اور کم فہمی کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب لاک ڈاؤن  کو اشرافیہ کا ہتھکنڈا اور عمران خان کو ملک کے  لاچار لوگوں کا ان داتا قرار دے کر حالات کی ایسی تصویر بنائی جارہی ہے کہ  کورونا کے شدید پھیلاؤ کے باوجود حکومت سرخرو دکھائی دے۔  ان حالات میں   ’آمرانہ اختیارات‘ کی دبی ہوئی خواہش  سینے میں ہی دفن رہے گی۔

عمران خان نے کرپشن کے خاتمہ کو اپنے اقتدار میں آنے  کے جواز طور پر استعمال کیا ہے اس لئے وہ  بجا طور سے یہ سمجھتے ہیں  کہ ملک کی بہبود یا بھلائی کا کوئی کام ہو یا نہ ہو  لیکن جن لوگوں کو انہوں نے سال  ہا سال کی الزام تراشی میں  قومی دولت کے ’لٹیرے‘ ثابت کردیا ہے ، انہیں چین کا سانس نہ لینے دیا جائے اور نیب  کے علاوہ اپنے زیر  انتظام دیگر سرکاری اداروں کو  اپوزیشن لیڈروں  کو ہراساں کرنے پر مامور رکھا جائے۔ پروپگنڈا کرنے اور رائے سازی میں چونکہ عمران خان اور تحریک انصاف کو ید طولیٰ حاصل ہے، اس لئے خواہ وہ اپنے ہی ساتھیوں کا پیدا کیا ہؤا شوگر اسکینڈل ہی کیوں  نہ ہو،  اس کی ’فورنزک رپورٹ‘ عمران خان  کو ہیرو اور شہباز شریف کو سارے مسئلے  کی جڑ قرار دینے کا سبب بن جاتی ہے۔ اور حکومتی نمائیندے پوری ڈھٹائی  اور بے شرمی سے  سابقہ حکومتوں پر ملبہ ڈال کر خود سرخرو ہونے کا کامیاب ڈرامہ رچانے میں کامیاب رہتے ہیں۔

شریف  اور زرداری خاندان کے علاوہ دیگر اہم  سیاسی لیڈروں کے خلاف مسلسل کارروائیوں کی وجہ سے اپوزیشن  پوری طرح دیوار سے لگی ہوئی ہے لیکن عمران خان کا  کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ عذر تو یہی ہے  کہ یہ سب چور ہیں اور عمران خان  چوروں کو پکڑ کر ہی دم لے گا لیکن اصل تکلیف یہ  بھی ہے کہ  مقتدر حلقوں کی سرپرستی اور حمایت کے باوجود  یہ اندیشہ موجود رہتا ہے کہ  کوئی متبادل سامنے لا کر ان  کے اقتدار  کا تمت  بالخیر نہ کردیا جائے۔ عمران خان ابھی  یا کبھی اقتدار سے علیحدہ ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔  اس لئے شہباز شریف کا گھیراؤ بے حد ضروری  ہے کیوں کہ  وہ بھی  ساجن کی انہی گلیوں سے خیر مانگتے ہیں  جہاں کے سوالی عمران خان ہیں۔ دامن امید بھر جانے کے باوجود  رقیب کی مراد پوری ہونے  سے  اپنی خواہشیں  نامکمل رہ جانے کا امکان ہے۔

رمضان المبارک کے دوران شیخ رشید کی پیش گوئی ہو  یا گزشتہ روز شہباز شریف کی گرفتار ی کے لئے نیب کی بھاگ دوڑ، اس کا مقصد ایک ہی ہے کہ   ہر طرح کے متبادل کا راستہ روکا جائے تاکہ کوئی دوسرا ’چوائس‘ ہی باقی نہ رہے اور مجبوراً آزمائے ہوئے کپتان کو ہی میدان میں اتارنا پڑے۔  یہ کوششیں کرتے ہوئے البتہ عمران خان  بھول  جاتے ہیں کہ عوامی تائد کی بجائے  محلّاتی سازشوں  پر بھروسہ کرتے ہوئے اقتدار تک پہنچنے والے لیڈروں کو  بہر صورت  اس خوف کا سامنا رہے گا۔ متبادل   تیار کرنے والوں کے پاس   قومی ضرورتوں کے مطابق قائد تیار کرنے کا سانچہ موجود رہتاہے جس میں حسب ضرورت جب چاہیں کوئی ’شہباز شریف‘ تیار کیاجاسکتا ہے۔  ’ایک بھٹو مارو گے ، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘ تو ایک جذباتی سیاسی نعرہ تھا اور  شاید  اس سے زیادہ اس کی  حیثیت و ضرورت  بھی نہیں  تھی  لیکن پاکستانی سیاست کے   جس سانچے سے عمران خان ڈھل کر نکلے ہیں، وہ ہر گھر سے عمران خان یا شہباز شریف نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یعنی ہر  قسم کے موسم میں حسب ضرورت لیڈر پیدا کرنا اس  ورک شاپ کے بائیں ہاتھ کا  کھیل ہے۔

اس پس منظر     میں  نیب کی بے قراری اور حکومت کی پریشانی کو تو سمجھا جاسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کو آخر ایسی کون سی  پریشانی ہے کہ  وہ گرفتاری سے بچنے کے لئے کبھی گھر سے مفرور ہوتے ہیں اور کبھی ہائی کورٹ پہنچنے کے لئے بھیس بدلتے ہیں اور پہریداروں کو جُل دے کر ضمانت کے لئے  حاضری لگواتے ہیں۔ اگر وہ خود کو بے قصور اور نیب کو حکومت کا سیاسی ہتھیارسمجھتے ہیں  تو انہیں تو فراخ دلی سے گرفتاری دینی چاہئے اور نیب کی حراست میں بیٹھ کر واضح کردینا چاہئے کہ عوام کی قیادت کے خواہشمند لیڈر قید و بند سے  واقعی نہیں گھبراتے۔   گو کہ شہباز شریف ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے  صدر ہیں اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں لیکن ان کی قیادت میں اپوزیشن ملکی سیاست یا پالیسی سازی میں کوئی کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ملک مسائل کے انبار میں دبا ہؤا ہے۔ حکومت معیشت سے لے  کر کورونا وائرس اور سفارت کاری کے ہر شعبہ میں ناکام ہے لیکن اپوزیشن اس کی گرفت کرنے یا  ٹھوس پالیسی متبادل عوام  کے سامنے نہیں لاسکی۔ وہ نہ میڈیا کے ذریعے حکومت کی ناکامیوں پر قابل قبول گفتگو کرپارہی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں ٹھوس دلائل کی بنیاد پر حکومت کو چیلنج کرسکی ہے۔  اس وقت ملکی سیاست میں  یک پارٹی نظام والی کیفیت ہے۔

شہباز شریف یوں بھی اپوزیشن کی نہیں اقتدار کی سیاست کرنے کے ماہر ہیں۔ اسی مہارت کی وجہ سے انہوں نے اپنے بڑے بھائی اور بھتیجی کو نام نہاد  ’بیانیہ ‘ تج  کے خاموش رہنے پر آمادہ کیا تاکہ وہ خود پاکستان  جا کر عمران خان سے حکومت چھیننے کے منصوبہ کو عملی جامہ  پہنا سکیں۔ وہ  اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے اور اب  نیب کی گرفتاری سے بچے رہنے کے لئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں۔  کیا   یہ مناسب نہ ہوتا کہ وہ گرفتاری دیتے  اور   پاکستان آنے کی صورت میں  ’انعام و اکرام‘ کے وعدے کرنے والے مہربانوں  تک یہ پیغام پہنچاتے کہ  بیانیہ ترک کرکے ان کی پارٹی کو خواری اور ہزیمت کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔  گٹھ جوڑ کی سیاست میں ناکامی کے بعد اب وہ دل جمعی سے جمہور کی سیاست کریں گے خواہ اس کے لئے انہیں جیل میں ہی کیوں بند نہ ہونا پڑے۔   کیا شہباز شریف  نہیں سمجھتے کہ  وہ مفاہمت کی جس سیاست اور  قومی کاز کی  جس پالیسی پر گامزن رہے ہیں، وہ  ناکام ہوچکی ہے۔ اب  شہباز شریف کی حیثیت ’چلے ہوئے کارتوس‘ سے زیادہ نہیں ہے۔  انہیں یہ ناکامی ان ووٹروں کی ناقدری  کی وجہ سے ملی ہے جن کی حمایت سے وہ قومی اسمبلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

عمران خان بھی نظام تبدیل کرنے کا نعرہ لے کر اٹھے تھے  لیکن  وزیر اعظم بننے کے لئے اسی نظام کے اسیر ہونے پر راضی ہوگئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے سیاست دان  جمہوریت کی رٹ چھوڑ کر ’قومی مفاد‘ کی سیاست کو سیاسی نعرہ بنالیں یا حقیقی معنوں میں اس نظام کو تبدیل کرنے  کے لئے قربانی دیں  جس   میں نیب سمیت سارے سرکاری ادارے  صاحب اقتدار کو سلام کرتے ہیں  اور اس کے مخالفین کو  زچ کرنےکا اہتمام کرتے ہیں۔  اب  دو غلی حکمت عملی سے کام نہیں چلے گا۔

ملک میں جس جمہوری احیا کی  ضرورت ہے اس  میں صرف اسٹبلشمنٹ کی اصلاح ہی  کافی نہیں ، سیاسی پارٹیوں کو بھی اپنا طریقہ اور رویہ بدلنا ہوگا۔  قانون سازی کے طریقے اور   انصاف کے ضامن عدالتی نظام کو بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔   ورنہ کیا وجہ ہے  کہ   سابق وزیر اعظم ہو یا کسی میڈیا گروپ کا مالک  کوئی مقدمہ چلائے بغیر  اسے کئی کئی ماہ تک قید رکھا جاسکتا ہے۔ ضمانت کا معاملہ ہو یا  دباؤ  و تحریص میں  آئے ہوئے جج کا فیصلہ، اعلیٰ  عدالت  کئی کئی سال انصاف دینے میں ناکام رہتی ہے ۔  اقتدار سے انصاف  کشید کرنے والی  عدالتیں بھی کسی قابل عمل جمہوری نظام میں قبول نہیں  کی جا سکتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments