گناہ گار چہرے بے نقاب ہو نے لگے!


ملک کی فضا کورونا وائرس کے ساتھ احتساب کے غلغلے سے گونج رہی ہے، ایک بار پھرگرفتاریاں ہو رہی ہیں، حکومت کا دعویٰ ہے کہ قومی خزانے کو لوٹنے والے والوں اور پاکستان کو دوسروں کا محتاج بنا کر منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنانے والوں کو شکنجے میں لے لیا جا رہا ہے۔ حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں، سارا کام نیب کے ہاتھوں سے ہو رہا ہے جو آزاد اور خود مختار دارہ ہے۔ ملک میں ہر ایک کا بلا امتیاز احتساب ہونا چاہیے، مگر نیب کی گرفت اپوزیشن پر زیادہ اور حکومتی ارکان پر کم نظر آنے کے باعث انتقامی کارروائی کا تاثر ابھرتا ہے۔

حکومت وزرا اپوزیشن رہنماؤں کی کرپشن کے ارتکاب پر آئے روز تضحیک آمیز بیانات دینے کے ساتھ نئی گرفتاریوں پرپیش گویاں بھی کی جاتی ہیں۔ یہ حکو متی وزرا  کاطرز عمل ادارہ نیب کے بلا امتیاز احتسابی عمل کو مشکوک بنانے کے ساتھ نیب، حکومت گٹھ جوڑ تاثر کو تقویت دینے کا باعث بن رہا ہے، جبکہ نیب کا ادارہ کرپشن کے سدباب کے لئے بیشک اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے، ملک بھر میں اس کی کارکردگی بلا امتیاز، غیرجانبدارجاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومتی وزرا یا ان کے حامی بھی کچھ غیر قانونی کارروائیوں سے کرپشن، خورد برد اور لوٹ مار میں ملوث پائے جاتے ہیں تو انہیں بھی جلد قانونی گرفت میں لانا ضروری ہے، تاکہ بروقت تمام گمنام گناہ گار چہرے عوام کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔

اس میں شک نہیں کہ اس وقت ملک میں متعدد بحرانوں کے باوجود احتساب کا سلسلہ جاری ہے۔ ادارہ نیب بھر پور طریقے سے متحرک ہے، جبکہ حکومتی صفوں میں بدعنوانی کو روکا جا رہا ہے، اگر کوئی وزیر ’مشیر یا معاون خصوصی‘ کمیشن یا کک بیکس میں ملوث پایا جاتا ہے تو حکومت اس سے فوراً استعفیٰ طلب کر لیتی ہے، جبکہ نیب اپنے قانون کے مطابق اس سے تفتیش کر رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان احتسابی عمل کو مزید تیز کر نے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں، جبکہ نیب اپنے ماٹو احتساب سب کے لئے پر سختی سے عمل کرتے ہوئے قو می لٹیروں کو گرفت میں لے رہا ہے۔

گزشتہ حکمرانوں نے اس ادارے کو خود سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا اور اب موجودہ حکومت پر نیب گٹھ جوڑ کا الزام لگاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بنیادوں پر ادارے کو استعمال کر کے نہ صرف اس کی ساکھ کو متاثر کیا، بلکہ من پسند احتساب کا ڈھونگ بھی رچایا گیا، آج بھی بہت سے مقدمات میں زیادہ تر ان کے دور اقتدار کے بنائے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دور اقتدار میں پہلے کرپٹ سیاسی افراد کے گرد گھیرا تنگ کیا جاتا تھا، بعد ازاں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کے عوض انہیں کلین چٹ دے دی جاتی تھی۔

سابق صدر مشرف کے دور میں بھی اس ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا، اس ادارے کے زیر اثر سیاسی جماعتوں کو تقسیم کر کے نئی پارٹیاں تخلیق کی گئیں اور پارلیمنٹ کو کمزور کیا گیا، جس کے باعث قوم کا اس ادارے سے اعتماد اٹھ گیا تھا، لیکن موجودہ چیئرمین نیب نے ایک بار پھر بلا تفریق احتساب کی بنیاد رکھ کر عوامی اعتماد بحال کیا ہے۔ اس کے باوجود اپوزیشن اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے ادارہ نیب کو نتنازع بنا رہی ہے۔

اپوزیشن چاہتی ہے کہ جمہوریت کی بقا میں ان کی کرپشن کے بارے میں سوالات نہ پو چھے جائیں، نیب نے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کیس میں طلب کیا تھا، لیکن وہ کرونا کا بہانہ بنا کر اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے جوابات دینے نہیں آئے، جس کے بعد نیب نے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی، لیکن روپوش ہو گئے اور بعد ازاں عدالت سے عبوری ضمانت کروا لی ہے۔ اگر میاں شہباز شریف نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی اور اپنے اثاثہ جات ظاہر کیے ہیں تو انہیں نیب کے سامنے یا پھر عدالت میں اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے جوابات دینے چاہیے، محض الزام تراشیوں سے احتسابی عمل سے بچنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو گیا ہے۔

تحریک انصاف احتساب کے نام پر ووٹ لے کر بر سر اقتدار آئی تھی، اقتدارمیں آنے کے بعد سے وزیر اعظم عمران خان احتسابی عمل پر کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، حالانکہ بہت سے حکو متی وزیر و مشیر بھی انہیں باہمی مشاورت کے نام پر ڈیل اور ڈھیل کے مشورے دیتے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ وہ حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، مگر قومی لٹیروں کی کبھی نہیں چھوڑیں گے، اسی حوالے سے وفاقی کابینہ نے احتساب بلا تفریق جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ واقعی ایک قابل ستائش قدم ہے، کیو نکہ جب تک ملک میں ایک بار بے رحم احتساب نہیں ہوگا، تب تک غریب کی حالت کو بدلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ عوام اپنی حالت بدلنا چاہتے ہیں، انہیں عمران خان کی قیادت پر یقین ہے کہ وہ قومی لٹیروں کو احتساب کے شکنجے می جکڑ کر لوٹی دولت واپس لانے میں کا میاب ہو جائیں گے، کیو نکہ قومی خزانہ بھرے گا تو ہی پا کستانی غریب کی حالت میں تبدیلی آئے گی۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومت ورثے میں ملنے والی مشکلات کے باوجود درست سمت کی جانب گامزن ہے۔ ملک کے تمام ادارے ایک پیج پرہیں اور حکومت کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ تمام ادروں کی کار کردگی کو عوام کے سامنے لائے۔ ادارہ نیب جن لوگوں کو پکڑ رہا ہے، ان سے لوٹا مال واپس لیتے وقت عوام کو آگاہ کیا جائے، تا کہ کس سیاستدان نے کتنا پیسہ واپس کیا عوام کو بھی پتہ چلنا چاہیے، اس سے عوام کا نیب کے ادارے پر اعتماد مضبوط ہو گا، کیو نکہ ابھی تک تو عوام بڑی گرفتاریوں کے بعد ضمانتیں ہوتے ہی دیکھ رہے ہیں، احتساب کے نام پر خالی گرفتاریاں اور ضمانتی کافی نہیں، عو ام قومی لٹیروں کو سزا و جزا سے گزرتا ہوا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کا بڑی ڈھٹائی سے کہنا کہ ملازم کے نام پر اکاؤنٹ کھولنا یا ٹرانزیکشن جرم نہیں، اس کی وسیع پیمانے پر تحقیق ہونی چاہیے، چیئرمین نیب رانا ثنا اللہ کے بیان کی روشنی میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کریں، تاکہ سبھی گمنام چہروں سے پردہ ہٹ سکے۔ ملک کے تمام گناہ گاروں کے جب تک چہرے بے نقاب نہیں ہوں گے ، تب تک غریب آدمی کی حالت تبدیل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments