خواجہ سرا بھی انسان ہوتے ہیں


ہمارے معاشرے میں شاید اتنا ”کریٹیسائیز“ طوائف (کوٹھے والی) کو بھی نہیں کیا جاتا جتنا خواجہ سرا کو کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو طوائف اپنی مرضی سے بنتی ہے۔ اسے حالات بناتے ہیں۔ جبکہ خواجہ سرا اپنی مرضی سے نہیں بنتا۔ اسے خدا بناتا ہے۔ یہ خدا کی قدرت ہے۔ خدا کی مرضی ہے۔ وہ جسے چاہے لڑکی بنائے۔ جسے چاہے لڑکا بنائے۔ جسے چاہے خواجہ سرا بنائے۔ وہ جس کے ہاں چاہے لڑکی پیدا کرے۔ جس کے ہاں چاہے لڑکا پیدا کرے۔ جس کے ہاں چاہے دونوں پیدا کرے۔ جس کے ہاں چاہے خواجہ سرا پیدا کرے۔ جس کے ہاں چاہے کچھ بھی پیدا نہ کرے تا عمر ان کی کوکھ خالی رکھے۔

خواجہ سرا تو ساری زندگی در در کی ٹھوکریں اک ایسے جرم کی سزا میں کھاتے ہیں۔ جو جرم انھوں نے کیا بھی نہیں ہوتا۔ کیا یہ اذیت کم سمجھتے ہو، کہ تمھیں تمہاری جنم دینے والی ماں کی کوکھ ہی تمہیں دنیا کے سامنے قبول نہ کرے۔ بلکہ در در رولنے کے لیے خود اپنے ہی ہاتھوں سے تمہیں غیروں کے حوالے کردے۔ جو تمہارے جسم کو کتوں کے موافق نوچ نوچ کھائیں۔ کیا یہ دکھ کم ہے تم جہاں سے گزرو چاروں طرف سے لعن طعن ہونے لگ جائے۔ چاروں طرف سے تم پر آوازیں کسی جائیں۔ چاروں طرف سے سیٹیاں بجائی جائیں۔ اور تم چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکو۔

جہاں تمہیں صرف اور صرف چند پیسے دے کر دل بہلانے کے لیے محفل موسیقی کی زینت بنایا جائے۔ تمہاری اپنی آزادانہ زندگی ہوتے ہوئے بھی تم سے رکھیل یا لونڈیوں جیسا سلوک کیا جائے۔ جہاں دوسرے کہیں، جیسا دوسرے چاہیں تمہارے پاؤں کی ایڑی رقص کی غرض سے وہاں جا لگے۔

پل بھر کو سوچو کیا تم جینا چاہو گے ایسی زندگی؟ میرے خیال سے تو کوئی بھی نہیں چاہے گا۔

پھر تم اس تخلیق خدا کے ساتھ یوں تیکھا رویہ کیوں روا رکھتے ہو؟ کیا تمہارا لڑکی یا لڑکا پیدا ہونا تمہارے خود کا کمال ہے؟

ہمارے ہاں کئی معذور بچے بھی پیدا ہوتے لنگڑے، لولے اور گونگے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب ہم انھیں پھینک دیں؟ خیر خواجہ سرا کا کیا رونا رونا یہاں تو بوڑھے ماں باپ کو بوجھ سمجھ کر اولڈ ہاؤس میں شفٹ کر دیا جاتا ہے۔ یہ تو پھر خواجہ سرا ٹھہرے۔

لیکن خواجہ سرا ہونے کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ہم اس سے جینے کا حق چھین کر اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیں؟

ہم خواجہ سراؤں کو معاشرے میں ایک اچھا مقام دلوا سکتے ہیں۔ انھیں جینے کا حق دلوا سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہو گی۔ ہمیں منفی سوچ کو اپنے دل و دماغ سے نکال کر مثبت سوچ سوچنا ہو گی۔ کیونکہ منفی راہ (الٹ راہ) شیطان کی ہوتی ہے۔ اور شیطان روز ازل سے ہمارا دشمن ٹھہرا۔ وہ کبھی نہیں چاہے گا ہم مثبت راہ (سیدھی راہ) اپنائیں۔ مگر ہمیں شیطان کو شکست دے کر رحمان کے رستے چلنا ہو گا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں۔ خواجہ سرا دنگے کرتے ہیں۔ فساد برپا کرتے ہیں۔ اگر کوئی پولیس والا یا قوم لوط سے بچا ہوا گھٹیا امیر کبیر آدمی کسی خواجہ سرا کو زبردستی پکڑ کر اس سے زبردستی ہوس پوری کر کے اسے چھوڑ دے گا۔ تو ایسے میں دنگے تو ہوں گے۔ فساد تو برپا ہو گا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ ناچتے ہیں گاتے پھرتے ہیں۔ اگر انھیں ان کی سگی ماں ہی کوکھ سے نکال باہر پھینکے گی۔ ایسے میں پیٹ بھرنے کے لیے چند نوالے تو انھیں بھی چاہیے۔

جب زمانے میں چاروں طرف سے تنقید ہو گی۔ کوئی جینے تک نہ دے گا۔ جہاں انھیں صرف ناچنے گانے کے لیے مخصوص سمجھا جائے۔ پھر ایسے معاشرے میں وہ ناچیں گے ہی گائیں گے ہی۔

اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سے ایسے کیسز بھی نظر آئیں گے۔ جہاں خواجہ سرا کا کسی گھر میں ہوتے ہوئے بھی کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔ کچھ ایسے کیسز بھی سامنے آئیں گے۔ کچھ ایسے خواجہ سرا بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ جو اس گندگی میں لت پت نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کا بوجھ ان کے والدین نے اٹھا رکھا ہے۔ بظاہر انھیں حکومت کے خوف سے معاشرے کی لعن طعن کو مدنظر رکھتے ہوئے خود سے جسمانی طور پر دور کر رکھا ہے۔ لیکن روحانی طور پر ان کے پاس ہیں۔ ماہانہ خرچہ ان تک پہنچا دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں۔ ان کے خواجہ سرا ہونے میں ان کا کوئی دوش نہیں۔

اگر ایسا سلوک ہر ایک والدین روا رکھیں تو میں نہیں مانتا کہ ایک بھی خواجہ سرا کسی محفل کی زینت بنے گا۔ یا ہمیں راہ چلتا نظر آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments