کرونا وائرس، میڈیا، شیخ رشید اور مادام متیرا


نوم چومسکی نے ایک دفعہ کہا تھا ”وہ کوئی جو میڈیا کو کنٹرول کرتا ہے عوام کے ذہن کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔“ اس قول کو پیش نظر رکھ کر اگر ہم پاکستانی میڈیا کی کارکردگی اور کرونا بیماری کے چلتے عوام کے غیر سنجیدہ رویے اور ایس او پیز (S 0 P) کا مذاق اڑانے سے ہمیں یہ ضرور معلوم ہو گا کہ میڈیا کو تو اس کے کمرشل و ذاتی مفاد، سیاسی قباحتوں، ریٹنگ کے گندے دھندہ اور سازشی صحافت کو فروغ دینے والے ٹولہ نے کنٹرول کر رکھا ہے۔ اس سب کو سامنے رکھا جائے تو عوام نے اس وبائی مرض کے وقت میں جس عمل کا مظاہرہ کیا ہے بالخصوص میرے نزدیک کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

جدید جمہوری ریاست میں میڈیا ریاست کے چوتھے ستون کے طور پر ایک بنیادی اور اہم کردار کا حامل ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کا بنیادی کام نہ صرف عوام کو معلومات عامہ دینا ہے بلکہ قوم کے اجتماعی سماجی، مذہبی، اخلاقی، سائنسی، اور سیاسی شعور کی تربیت کرنا اور اس کو پروان چڑھانا ہے۔ عام شہری کی ذہنی حالت کو اس جگہ پہنچانا ہے کے وہ ریاست کے کاروبار میں حکومت کی مدد و معاونت کے ساتھ ساتھ اس کی درستگی کا کام بھی کرتا رہے۔ ان چند بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے اور اپنے میڈیا اور خاص کر الیکٹرانک میڈیا کو دیکھا جائے تو افسردگی کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔

گزشتہ دو دہائیوں میں میڈیا کی آ زادی اور صرف کاروباری نوعیت کو سامنے رکھ کر کثیر تعداد میں نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینلز کھولے گئے۔ اس کا اندازہ آ پ اس بات سے لگا لیں کہ اب بیکری چلانے والے بھی نیوز چینل چلاتے ہیں۔ مثالیں اور بھی ہیں پر بات لمبی ہو جائے گی۔ انہی نیوز چینلز نے ایسے نام نہاد اینکرز اور تجزیہ نگار پیدا کیا ہیں۔ جنھوں نے مل کر عوام کے اجتماعی شعور کو نہ صرف ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ جو حال کیا ہے اس کو الفاظ میں بیان کرنا شاید ممکن نہ ہو۔

گیلپ پاکستان کے ایک سروے کے مطابق ایک عام پاکستانی اوسطاً دو گھنٹے ٹی وی کی نذر کرتا ہے۔ ابھی انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی بات نہیں کرتے ورنہ حالات اور خراب ہو جائیں گے۔ ان دو گھنٹوں میں عوام کے شعور کی جو حالت کر دی گئی ہے اس کا اندازہ حالیہ دنوں میں کرونا بیماری کے بارے میں جاننے اور حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایس او پیز کا جو حشر عوام نے کیا ہے وہ تو زبان زد عام ہے۔ اور یہ ایک دن میں نہیں ہوا ہے گزشتہ دہائی میں میڈیا نے بھر پور کوشش کر کے نہ صرف اس کی افزائش کی بلکہ اس کو دوام بخشنے میں سر دھڑ کی بازی لگا دی ہے۔

کمرشل اور ذاتی مفاد، ریٹنگ بٹورنے والے شوز، سائنسی اور سماجی موضوعات کا فقدان، اور صرف سیاسی اور ذاتی لڑائیوں کو اپنے پروگراموں کی زینت بنانے پر جو دلچسپی میڈیا نے عوام میں بکھیری ہے اس کے کیا کہنے کہ ستر فیصد (% 70 ) پاکستانی تو یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ یہ بیماری بغیر علامات کے بھی پھیل سکتی ہے۔ بس لے دے کے ہمارے میڈیا کے پاس شیخ رشید صاحب کی پیشن گوئیاں، احمد شاہ کی ”پیچھے تو دیکھو“ اور میڈم متیرا کی جاندار ادائیں ہی رہ جاتی ہیں۔ اربوں کے اشتہارات، طوطے کی طرح شور مچاتے میڈیا اینکرز اور پیسہ کے لیے ناچتے گاتے یہ اداکار اور گلوکار عوام کو یہ باور بھی نہ کرا سکے کہ کرونا کوئی بیماری بھی ہے۔ تو اس کارکردگی پر معصومانہ سوالات تو ضرور اٹھتے ہیں۔ پر میڈیا سے یہ سوال پوچھے کون؟ کیونکہ یہ حق تو انہوں نے اپنے لیے مختص کر رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments