زمین کی گردش اور مذہبی اذہان کی کنفیوژن


پچھلے چند دنوں سے ایک مولانا صاحب کی ویڈیو کے بارے بہت لے دے ہو رہی ہے جس میں وہ بچوں کو یہ باور کراتے ہوئے پائے گئے کہ اسلامی نظریے کی رو سے زمین ساکن ہے۔ ظاہر ہے یہ بات اب مشاہدات سے ثابت شدہ ہے کہ زمین ساکن نہیں بلکہ حرکت میں ہے اور نہ صرف سورج کے گرد مدار بلکہ اپنے محور کے گرد بھی گھومتی ہے۔ زمین کی حرکت محض ایک نظریہ نہیں بلکہ اب ایک مصدقہ حقیقت اور یونیورسل ٹرتھ بن چکی ہے۔

لیکن ہمارا عمومی مذہبی ذہن اس حقیقت سے کیوں انکاری ہے۔ ؟

میری نظر میں اس کی وجہ بھی سائنس ہے۔ اور وہی رویہ ہے کہ جس کی بنا پر آج بھی ہم قرآن پاک کی آیات کو زبردستی سائنس کی ڈومین میں قید کرنا چاہتے ہیں۔

جب قرآن نازل ہوا تو اس کے بہت بعد تک مستعمل فلکیاتی و سائنسی نظریات میں ارسطو کے فلسفے، اقلیدس کی جیومیٹری اور یونان کی سائنس کا غلبہ تھا۔ اس وقت سائنس یہ کہتی تھی کہ زمین ساکن ہے۔ دور بین یا دیگر الات تھے نہیں کہ باقی سیاروں، ستاروں کی حرکت سمجھا جا سکے اس لئے اس بات پر اس دور کے تقریباً تمام بڑے سائنسدانوں کا اتفاق تھا کہ زمین ساکن ہے۔

نزول قرآن کے بعد مفسرین، مترجمین، محدثین، فقہا اور علماء نے جب قرآن پاک کی روزمرہ کے دیگر مسائل بشمول سائنس کی روشنی میں وضاحت کی تو غیر محسوس طور پر انہوں نے انہی پرانے سائنسی نظریات کے حوالے قرآن پاک سے ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ اس وقت سائنس کا کل علم ہی اتنا تھا کہ انہیں مختلف آیات کو سمجھتے ہوئے یہ محسوس ہوا کہ جن آیات میں زمین کو بچھونا، مسکن یا قرار کی جگہ کہا گیا ہے اس سے مراد زمین کا ساکن ہونا ہی ہے۔

کیونکہ اس وقت کے سائنسی مشاہدات و نظریات کے مطابق ان کے ذہن میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی کہ کوئی حرکت کرتی ہوئی چیز اتنی ہموار بھی ہو سکتی ہے کہ اس پر آرام سے رہا جا سکے۔ انہوں نے تو ہمیشہ حرکت کی بدولت ہچکولے ہی سہے تھے، چاہے وہ گھوڑے کی پیٹھ ہو یا بگھی کی سیٹ۔ بھاگتے ہوئے پتھر اچھالتے وقت وہ آگے جاتے پتھر پیچھے رہ جاتا، گھوڑا جب دوڑتا تو سر سے دستار گر جاتی یا پلو اڑنے لگتا۔ ریلیٹو موشن، انرشیا اور حرکت کے قوانین سے وہ واقف ہی نہ تھے۔ غرض کہ وہ زمین کا ساکت ہونا ایک ایسی حقیقت سمجھتے تھے جس کا وہ روز مشاہدہ کرتے، اس کی تائید اس دور کی سائنس بھی کرتی تھی چنانچہ قرآن پاک سے بھی انہوں نے آیتوں کے حوالے اسی نقطۂ نظر سے ڈھونڈے۔

یہ بالکل وہی رویہ ہے کہ جیسے آج ہم نظریہ اضافیت سے لے کر کوانٹم فزکس اور معراج تک سب کی وضاحت قرآن سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن پاک کوئی سائنسی کتاب نہیں کہ اس میں تمام فارمولے موجود ہوں۔

ہاں ایک بات پر ایمان ہے کہ فطرت کے بنیادی اصولوں اور یونیورسل ٹرتھ کے خلاف کوئی بات قرآن پاک میں نہیں ہو گی۔ جیسا کہ قرآن پاک میں سورۂ یٰسین میں اجرام فلکی کے مسلسل اپنے مداروں میں تیرنے کا ذکر ہے بشمول سورج اور چاند کے بلکہ کائنات کے پھیلاؤ کے بارے میں بھی قرآن میں واضح آیت (الذاریات 51 : 47 ) موجود ہے۔ (یاد رہے کہ یہ اب صرف نظریات نہیں بلکہ تجربات و مشاہدات کی روشنی میں یونیورسل ٹرتھ ہیں کہ چاند سورج سمیت تمام سیارے و ستارے، اجرام فلکی، کہکشائیں مسلسل حرکت میں ہیں ) جبکہ کوئی بھی واضح آیت زمین کے ساکن ہونے کے بارے میں ہرگز نہیں ہے، اس کے برعکس زمین کے متحرک ہونے کے بارے میں زیادہ اشارے ملتے ہیں (سورۂ یٰسین۔ اجرام فلکی کی حرکت) ۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے روایتی علماء کرام کسی صورت میں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ان کے اکابر سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ اپنے اکابرین کے نظریات پر تنقید وہ اسلام پر تنقید سمجھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ ان بزرگان نے اپنی سمجھ کے مطابق اس دور کے بہترین سائنسی نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے عوام کو قرآن کی حقانیت سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کے اس کام کا اجر اللٰہ کے پاس ہے۔ ان کی نیت پر بھی کوئی شک نہیں لیکن آج کے دور میں جب کوئی بات مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہو جائے تو اس کو مان لینا چاہیے۔

علماء سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ پریشان نہ ہوں، یہ ہمارا ایمان ہے کہ یونیورسل ٹرتھ قرآن کے مخالف ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ خود غور و فکر کریں۔ پرانی سوچ سے نکلیں، نئے مصدقہ سائنسی حقائق کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں بلکہ عوام کو بھی بتائیں۔ اپنے اکابر پر تنقید کرنے اور سننے کا حوصلہ پیدا کریں کہ یہی غور و فکر اسلام ہم سے چاہتا ہے۔ اور اسی طرح وہ اپنے زمانے سے ہم آہنگ ہو کر بہتر طور پر اسلام کی خدمت کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments