ہم فریب زدہ قوم


کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس کی بنیاد جھوٹ اور فریب پہ رکھی گئی ہے۔ جہاں جھوٹ ایک قومی وتیرہ بن چکا ہے اور جہاں منافقت حب الوطنی کی علامت ہے اور جہاں ہر حادثے اور ہر المیے پر ایک کمیشن بنایا جاتا ہے جس کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آتی جہاں دہائیوں پہلے کی گئی قومی غلطیوں کو کبھی تسلیم نہیں کیا جاتا اور اس سے بھی بڑھ کر جہاں جھوٹ کو کتابوں کا حصہ بنا کہ ہمارے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ اور جہاں بحث کرنے کا مقصد صرف دوسرے کو نیچا دکھانا ہے نہ کہ مل بیٹھ کے کسی مسئلے کو سمجھنا یا اس کے بارے میں اپنے علم کو بڑھانا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ قومی سطح پر جھوٹ اور منافقت کا یہ رواج کیا ہمارے اور ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ کیا قوموں کی ترقی کا راز یہی پروپگنڈا اور جھوٹ ہے؟ کیا ہم نے ماضی میں جو غلطیاں کیں ان سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کے بجائے انھیں فخر کے طور پر کتابوں میں شامل کر کے قوم کی کوئی خدمت سر انجام دے رہے ہیں؟ کیا سوال کرنے والوں کے منہ بند کرنے سے اور ذہنوں کو تنگ نظر بنانے سے یہ قوم دنیا کے عظیم ترین معاشروں میں شامل ہو جائے گی؟ یہ سب وہ سوال ہیں جو کئی سالوں سے میرے ذہن میں جھنجھوڑ رہے ہیں اور جن پہ میں جتنا غور کرتا ہوں اتنا ہی الجھتا جاتا ہوں۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر چیز کے دو ورژن ہیں ایک وہ جو ہم نے اپنی تدریسی کتابوں میں پڑھا ہوتا ہے اور ایک وہ جو حقیقت میں ہوا ہوتا ہے۔ یہ بات خصوصاً تاریخ اور مذہب کے بارے میں بہت زیادہ تواتر سے ملتی ہے۔ بہت واضح حقائق بھی بہت بے شرمی کے ساتھ تدریسی کتابوں میں مسخ کے گئے ہیں۔ تو کیا جھوٹ کا درس دینا ہمارے وسیع تر قومی مفاد کا حصہ ہے؟ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کہیں یہی تو ہماری معاشرتی تنزلی کا سبب تو نہیں؟ کیا سوالوں کو دبا کر اور جھوٹ کو فروغ دے کر ہم اپنے بچوں کے ذہنوں کو مسخ تو نہیں کر رہے؟

آج جس دنیا میں ہم جی رہے ہیں اس کی بنیاد صرف اور صرف عقل اور سوال کرنے کی استعداد پر رکھی گئی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں کہیں نہ کہیں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے جس میں سوال کرنے کا فروغ اور سچ کو تلاش کرنے کی جستجو اور ہر بات پر من و عن یقین نہ کرنے کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہم نے جھوٹ اور منافقت کو اسی طرح قومی وتیرہ بنائے رکھا اور اپنی ہر غلطی کو غلطی سمجھنے کے بجائے اس پہ فخر جاری رکھا اور اپنے تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیاں نہ کیں تو ہم مستقبل میں مزید تنزلی کا شکار ہوتے رہیں گے۔

یہاں پہ یہ بات بھی واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ کوئی ناممکن عمل نہیں ہے جو ہم نہ کر سکیں ہماری پاکستانی قوم میں بہت جذبہ بھی ہے اور ہم لوگ بہت سے معاشروں سے بہت بہتر بھی ہیں۔ ضرورت فقط اس امر کی ہے کہ ہم ان بنیادی وجوہات کو سمجھیں جن کی وجہ سے ہمارا معاشرہ آج اتنا ترقی یافتہ نہیں ہے جتنا کہ ہم دوسرے معاشروں کو دیکھتے ہیں۔ اور یہ سوال اٹھائیں اور اس پہ غور کریں کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ ہم آج اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے ہمیں بہت بہتر ہونا چاہیے تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments