اپوزیشن کی ”اچانک“ بلائی گئی ’اے پی سی‘ کا درپردہ ایجنڈا کیا ہے؟


عدالتی فیصلے یا حکم کے تحت نا اہل ہوجانے والے منتخب وزرائے اعظم میں ایک اور نام کا اضافہ ہو سکتا ہے البتہ اس تیسرے وزیراعظم کے، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرح توہین عدالت کا مرتکب قرار پا کر سزا پانے کی بنیاد پر نا اہل ہونے کا امکان ہے، اور اسی امکان کے پیش نظر سیاسی قوتوں نے صف بندی شروع کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق بظاہر اٹھارہویں ترمیم پر بلائی گئی اپوزیشن جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس کا اصل ہدف اگلے وزیراعظم کے لئے ایاز صادق کے نام پر پوری پارلیمانی اپوزیشن کا اتفاق رائے حاصل کرنا ہے۔

ذرائع کے مطابق حالات کے تیور دیکھتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں نے یکا یک پھر سے منظم ہونا شروع کر دیا ہے اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے مولانا فضل الرحمان، سراج الحق اور پیپلز پارٹی کی قیادت سمیت ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں سے ہنگامی رابطے کر کے وڈیو لنک پر کل جماعتی کانفرنس طلب کی ہے جو بظاہر تو قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے پہلے پہلے اٹھارہویں ترمیم کے ایشؤ پر اپوزیشن کا مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کی غرض سے بلائی گئی ہے البتہ درحقیقت اس کا درپردہ ایجنڈا آنے والے دنوں میں ایک ممکنہ سیاسی حادثے کے پیش نظر نئے وزیر اعظم کے لئے متفقہ امیدوار ”نامزد“ کرنا ہے۔ ۔

ذرائع کے مطابق ”نون“ لیگ اس ضمن میں درپردہ ”منتخب۔“ کیے گئے اپنے امیدوار سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو اپوزیشن کا واحد اور متفقہ امیدوار بنوانا ہے کیونکہ ’جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس‘ میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اگلے چند ہفتوں میں آجانے کا امکان ہے، اس لئے کہ یہ مقدمہ سننے والے بڑے بنچ کے سربراہ اپنے ریمارکس میں کہہ چکے ہیں کہ عدالت گرما کی چھٹیوں سے پہلے اس کیس میں فیصلہ دے دے گی، لہٰذا عدم اعتماد سے زیادہ وزیراعظم عمران خان کے کسی دوسری بنیاد پر قائد ایوان نہ رہنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ میں زیر سماعت ’جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس‘ کا فیصلہ ملک کے سیاسی منظر نامے میں بڑی تبدیلی کی وجہ بن سکتا ہے، اسی لئے ملکی و عالمی قوتوں کی توجہ و توقعات اسی فیصلے سے وابستہ ہو گئی ہیں کیونکہ پاکستان میں کسی بڑی تبدیلی کی خواہاں عالمی طاقتیں جو ماضی میں اس ہدف کے حصول کے لئے یا تو ملکی اسٹیبلشمنٹ یا اس کے ایک حصے یا پھر سیاسی طبقے کو استعمال کرتی رہی ہیں، اس صورتحال میں جب ملک میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کا گٹھ جوڑ ہے، ان کے پاس بھی عدلیہ پر انحصار کرنے کے سوا کوئی اور آپشن موجود نہیں جسے پاکستان میں اقتدار و طاقت کی تکون میں ایک نہایت اہم player کی حیثیت حاصل ہے۔

ادھر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کروانے کے پیچھے اصل کردار نے بھی ممکنہ عدالتی فیصلے کے پیش نظر ”ضروری“ تیاری شروع کر دی ہے اور اپنے گمنام ”کھوجیوں“ کو بعض ’ناموافق‘ اہم شخصیات کے خلاف مواد ڈھونڈ کر اکٹھا کرکے تیار رکھنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں تاکہ اسے عدالتی فیصلے کے اعلان سے قبل کے ممکنہ دورانیے میں ہدف کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ بتایا جاتا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا آئیڈیا نہ تو ’اثاثہ ریکوری یونٹ‘ کے سربراہ اور وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کا تھا، نہ وزیراعظم عمران خان کو اس منصوبہ بندی کا کوئی علم تھا، نہ صدر مملکت اس سے آگاہ تھے اور نہ ہی جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف درخواست دینے والے انتہائی غیر معروف کردار وحید ڈوگر کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا تھا، بلکہ یہ سارا منصوبہ ایک ہی شخص کا ”برین چائلڈ“ تھا جو مزید طاقتور بن جانے کے بعد اس وقت ملک کی انتہائی طاقتور شخصیات میں شامل ہے، اور اس ساری منصوبہ بندی کا واحد ہدف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو 2023 میں چیف جسٹس آف پاکستان بننے سے روکنا بتایا جاتا ہے۔ ۔ اسی لئے زیر سماعت کیس میں صدارتی ریفرنس ”بد نیتی“ پر مبنی ثابت ہوجانے کی صورت میں اس مقدمے کا فیصلہ دور رس اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments