خدمت خلق کے آسان راستے


ہمارے ہاں اکثریت کا یہی خیال ہے کہ خدمت خلق کے لیے ضروری ہے کہ ہم ملک ریاض ہوں اور بحریہ ٹاؤن جیسے ادارے کے مالک ہوں یا پھر ہمارا نام بل گیٹس ہو اور ہم اربوں ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہوں۔ اسی غلط تصور کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو بڑی آسانی سے ا نسانیت کی خدمت سے محروم کر لیتے ہیں۔ اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ ہمارے ہاں نیکی کا یہ کام با لکل نہیں ہو رہا۔ یہاں بہت سے ادارے اور اشخاص خفیہ اور علا نیہ، صبح و شام انسانوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔

ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے وافر رزق دے رکھاہے اور وہ شکرانے کے طور پر اس نیک کام میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اپنے وعدے کے مطابق اللہ ایسے لوگوں کے رزق میں اور برکت دے دیتا ہے جو اس کے دیے ہوئے مال میں سے اس کی مخلوق کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ بے شک ملک ریاض اور بل گیٹس جیسے لوگ زیادہ آسانی سے یہ نیک کام کرنے کے قابل ہیں، لیکن کم آمدنی والے لوگ بھی حصہ بقدر جثہ والے فارمولہ پر عمل کرتے ہوئے اس کار خیر میں شریک ہو سکتے ہیں۔ آج دو ایسی وڈیوز دیکھنے کا اتفاق ہوا جن کودیکھ کر یہ احساس اور بھی گہراہوگیا کہ خدمت خلق کوئی مشکل کام نہیں۔

پہلی وڈیو میں ایک ایسے سوشل ورکر کو دکھایا گیا جو ایک دکاندار کے پاس آیا، اس کے حساب کتاب کا وہ رجسٹر اٹھایا جس میں ادھار لینے والوں کے نام درج تھے، ان میں سے کچھ لوگوں کا ادھار چکتا کیا اور ساتھ ہی دکاندار سے ان لوگوں کے فون نمبر لے کر ان کو آگاہ کیا اور ان کی ڈھیروں دعائیں لیں۔ وہ لوگ اس نیک آدمی سے ملنا چاہتے تھے، پر وہ راضی نہیں ہوا اور کہا بس دعائیں، رہا ملنے کاسوال تو کہا کہ انشاء اللہ اب جنت میں ہی ملیں گے۔

دوسری وڈیو میں ایک خستہ حال بوڑھا پھٹے پرانے جوتوں اور بوسیدہ کپڑوں کے ساتھ پرانی کتابوں کا بیگ اٹھائے فٹ پاتھ پر گاہکوں کی تلاش میں خوار ہو رہا تھا۔ ایک نوجوان آتا ہے اور اس کی ساری کتابیں جو کہ 11500 روپے کی ہیں بلا ضرورت خرید لیتا ہے اور اس کی ڈھیروں دعائیں لیتا ہے۔

ان دونوں وڈیوز کا پیغام بالکل واضح ہے کہ ہم لوگ ضرورت مندوں کی ضرورتیں بہت ہی آسان طریقوں سے پوری کر سکتے ہیں، بس ہم میں ایسا کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ ہم میں سے صاحب ثروت لوگ وقت نکال کر خاص طور پر چھوٹے چھوٹے محلوں اور کالونیوں میں قائم دکانوں پر جائیں تو وہاں ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو صرف بیس روپے کی چینی، چائے کے ڈبے کی بجائے صرف ایک ساشہ، پانچ روپے کی مرچیں، چند پاپے اور اسی قسم کا ضروری اور ناگزیر سامان بہت کم مقدار میں لے رہے ہوتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ بڑی آسانی سے ان کو انہی دکانوں سے ان کی ضروریات زندگی کی اشیاء وافر مقدار میں لے کر دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وڈیو میں دکھایا جانے والا ادھار چکانے والا طریقہ بھی آسانی سے اختیار کیا جا سکتا ہے۔

شہروں میں ایسے بہت سے خوانچہ فروش نظر آتے ہیں جو صرف ایک ہی چیز بہت کم مقدار میں فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا یہ سنگل آیٹم عموماً دوسرے خوانچہ فروشوں کے مال کے برعکس خوشنمائی سے بھی کوسوں دور ہوتا ہے، اس لیے لوگوں کی نظر ادھر کم ہی پڑتی ہے۔ ان کے چہروں کی خستہ حالی ان کے اندر کی ساری کہانی بیان کر رہی ہوتی ہے۔ ہم ان سے بلا ضرورت خریداری کر کے ان کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام۔

خدمت خلق ضروری نہیں کہ پیسے سے ہی ہو سکتی ہے۔ یورپ میں بہت سے لوگ اولڈ ہاؤسسز میں رہنے والے بوڑھے لوگوں کی تنہائی بانٹنے کے لیے ان کے ساتھ کچھ وقت گزارتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اب ایسے ادارے بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ شناختی کارڈ بنانے والے ادارہ ”نادرا“ اور اس قسم کے دوسرے سرکاری اداروں کے باہر بہت سے ان پڑھ اور پیچیدہ قوانین سے لا علم لوگ دھکے کھا رہے ہوتے ہیں، ہم ان کے کام آکر بھی اس کار خیر میں حصہ لے سکتے ہیں۔

بہت سے ڈاکٹرز پہلے بھی اس میدان مین جھنڈے گاڑھے ہوئے ہیں اور وں کو بھی آگے آنا چاہیے۔ بہت سے مریضوں سے وہ اگر بھاری فیسیں لے رہے ہیں تو کچھ لوگوں سے نہ بھی لیں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اسی طرح تعلیمی اداروں کے وہ اساتذہ جو ٹیوشن پڑھاتے ہیں وہ ضرورت مند طلباء کو فیس سے مستثنٰی کر سکتے ہیں۔ کتب فروش ضرروت مند طلباء کو کم قیمت پر یا فری کتب مہیا کر کے اپنی نیکیوں میں آسانی سے اضافہ کر سکتے ہیں۔

ہمارے ہاں آج کل فرسٹریشن نے ایک وبائی صورت اختیار کی ہوئی ہے جس کو دیکھو وہ پریشان اور دکھی ہے۔ ماہرین خدمت خلق کو اس کا بہترین علاج قرار دیتے ہیں۔ ہ میں اس سستے علاج کی طرف رجوع کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ ہ میں آسانیاں تقسیم کرنے اور بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments