شہباز شریف کی گرفتاری کیوں ضروری ہے؟


کورونا کے پھیلاؤ کے باوجود نا اہلیت کے شہنشاہ کی جانب سے شہباز شریف کی گرفتاری کا بھونڈا اقدام فی الوقت عدالت کی وجہ سے کارگر نہ ہو سکا مگر اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ فیصلہ صرف سلیکٹڈ کہلائے جانے والے وزیراعظم کا ہی ہے یا اس کے پیچھے وہ بھی ہیں جن کا نام لکھنے سے تحریر میں کانٹ چھانٹ ہو جاتی ہے۔

موجودہ دور حکومت میں اگر یہ کہا جائے کہ مقتدر قوتوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ پاور بروکرز مارشل کے ادوار میں بھی اتنے پرسکون انداز میں حکومت نہیں چلا سکے جس قدر اطمینان سے اس یرغمال جمہوریت میں ان کا سکہ چل رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ دو کشتیوں کا مسافر منزل تک نہیں پہنچ پاتا مگر ہمارے پاور بروکرز بیک وقت حکومت کے ساتھ بھی ایک صفحے پر ہیں اور اپوزیشن کو بھی یہ گمان رہتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ محو سفر ہیں۔ ایک جانب پاور بروکرز یہ تاثر دیتے ہیں کہ پاکستان ایک بار پھر ”نازک“ دور سے گزر رہا ہے مگر دوسری جانب وہ اپنے روایتی ہتھکنڈوں پر بھی عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی آلہ کار بننے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ہیں۔

کرونا وائرس کے آغاز سے حکومت میں حکمت عملی اور فہم و فراست کا واضح فقدان نظر آیا۔ لاک ڈاؤن کرنے اور نہ کرنے وفاقی حکومت کے ساتھ نہ تو صوبے ایک پیج پر تھے اور نہ ہی عسکری ادارے۔ حکومتی اقدامات کی وجہ سے ایک صفحہ پر موجود ہونے والی مقتدر قوتوں اور سلیکٹڈ کے نام سے مشہور عمران خان کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی تھی۔ اسی ہنگام میں شہباز شریف کی اچانک آمد نے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔

شہباز شریف کی آمد ان حالات میں ہوئی تھی جب معاملات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی کورونا وائرس کوآرڈینیشن میٹنگ میں بھی باوردی صاحبان کی جانب سے پہلے شرکت کرنے پر ٹال مٹول سے کام لیا گیا اور پھر آخری وقت میں شرکت کی گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب عمران خان کو بتایا گیا تھا کہ اب ان کی مرضی نہیں چلے گی اور انھیں سائیڈ لائن کر کے عملی طور پر عنان اقتدار کی تمام باگیں مقتدر قوتوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیں تھیں۔

خادم اعلی کے نام سے مشہور شہباز شریف آتے ہی جس طرح سرگرم ہوئے اس سے کچھ لوگوں کو پنجاب میں تبدیلی کی افواہیں پھیلانے کا موقع مل گیا۔ کچھ تجزیہ کار انھیں ڈی فیکٹو وزیراعلی بھی کہہ رہے تھے۔ مقتدر قوتوں کے قریب سمجھے جانے والے شہباز شریف اپنی اچانک پاکستان آمد پر کسی غیبی اشارے کی تردید کرتے ہیں مگر عام تاثر یہی ہے کہ ان کی آمد ”ان“ کے اشارے پر ہی ہوئی۔ یہ تاثر حکومت کے لئے پریشانی کا سبب ہے اور اسی کے تدارک کے لئے پہلے شیخ رشید اور پھر وزیراعظم عمران خان کو شہباز شریف کی گرفتاری سے متعلق خود بیان دینا پڑا۔

محدود کردار پر آمادگی کے بعد مختلف شعبوں میں حاضر اور ریٹائرڈ افسران کی تعیناتیوں سے وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف خلیج نما فاصلے کم کیے بلکہ ہچکولے کھاتی حکومتی کشتی بھی دوبارہ مستحکم ہو گئی۔ جس کپتان کو ہٹ دھرم، نکھٹو اور فرعون کے نام سے پکارا جا رہا تھا وہ دوبارہ آنکھوں کا تارا بن گیا اور مارچ، اپریل میں حکومتی تبدیلی کی اپوزیشن کی امیدوں اور ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ شہباز شریف کی سہیل وڑائچ کے ساتھ اعترافی ملاقات میں شکوے شکایتیں بھی اسی پیرائے میں تھی۔

شہباز شریف کے اعتراف پر گزشتہ کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ ایسے اعتراف پاور بروکرز کی نازک طبعیت پر گراں گزرتے ہیں اور ایسی بات کرنے والوں کو کچھ نہ کچھ جھٹکے دینا ضروری ہوتی ہیں مگر حکومتی خواہش کے باوجود مقتدر قوتوں کو شہباز شریف کی گرفتاری مقصود نہ تھی سو نہیں ہوئی۔ گرفتاری ابھی تو ٹل گئی ہے مگر شکایتی جذبات کو پنپنے سے روکنے کے لئے گرفتاری بہت ضروری ہے اور غالب امکان ہے کہ سترہ جون کے بعد شہباز شریف ایک بار پھر گرفتار ہو سکتے ہیں۔

معاشی انحطاط کی وجہ سے پاکستان ترقی معکوس کا شکار ہے مگر ہمارے پاور بروکرز اپنی طاقت کا کوئی بھی مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکتے۔ مقتدر قوتوں کے اشارہ ابرو پر برق رفتاری سے حرکت میں آنے والا نیب انہی کے کہنے پر واپس روانہ ہوا تھا ورنہ سب کو پتا تھا کہ شہباز شریف ماڈل ٹاؤن کے اسی گھر میں موجود تھے۔

سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کیوں شکوہ کناں ہیں۔ کیا مقتدر قوتوں نے پہلی بار ایسا کیا ہے جو ان کا پیمانۂ صبر چھلک پڑا ہے۔ یہ سوال شہباز شریف کو خود سے بھی کرنا چاہیے کہ جب کسی ایک سیاسی جماعت کی کھچائی ہوتی ہے تو دوسری جماعتیں تماشا کیوں دیکھتی ہیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ سیاستدان اپنے مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی غیر آئینی اقدام کے لئے آلۂ کار بنتے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس لیے جب ان کی باری آتی ہے تو دوسری جماعتیں بھی ویسا ہی طرز عمل اختیار کرتی ہیں اور یہی پاور بروکرز کی اصل طاقت ہے۔ سیاسی جماعتیں یہ کھیل سمجھتی تو ہیں مگر مفادات کی طمع انھیں مقتدر قوتوں کے چومکھی کھیل کا حصہ بننے پر مجبور کر دیتی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شہباز شریف اگر دس بار بھی گرفتار ہو جائیں تو بھی مقتدر قوتوں کے ساتھ اپنے مفاہمانہ رویے کو ترک نہیں کر سکتے لیکن اگر وہ شکوہ زباں پر لے آئے ہیں تو اس موقع کو ضائع نہ جانے دیں۔ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ووٹ کی عزت کا بیانیہ کسی بھی راستے ان کی زبان تک نہیں پہنچ سکتا لیکن وہ مسلم لیگ ن کو دوبارہ اسی بیانیے پر ڈال سکتے ہیں جو گزشتہ الیکشن سے پہلے اس کی پہچان بن چکا تھا۔ سیاستدان عوام کا نبض شناس ہوتا ہے مگر نجانے کیوں شہباز شریف اس راستے پر چلنے سے گریزاں ہیں۔ وہ اس راستے پر اگر 10 فیصد بھی چل پڑے تو عوام میں ان کی بے پناہ پذیرائی ہو گی۔ پاکستان کو سازشوں کے کھیل سے بچانا ہے تو سیاسی جماعتوں کو مفادات کا حصول ترک کر کے تو حقیقی جمہوریت کا راستہ اپنانا ہو گا ورنہ بقول شاعر عوام یہ کہنے پر حق بجانب ہوں گے کہ

رہنماؤں کو نہیں خود بھی پتا رستے کا
راہ رو پیکر حیرت ہے خدا خیر کرے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments