سادات فیصلہ کریں


گزشتہ دنوں معروف ریڈیو صحافی اور کالم نگار رضا علی عابدی صاحب کے ایک بیان پر بہت تنازع ہوا۔ جناب نے منہ بھر کے ”شہید رانی“ پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے ”گاؤں، دیہات کے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھرتی کیا۔ بس اس کے بعد جھاڑو پھر گئی۔“ یہ بیان پی آئی اے کے طیارے کو کراچی میں پیش آنے والے حادثے کے تناظر میں سامنے آیا تھا۔ ایک اور قابل احترام شخصیت جناب افضال سید نے فیس بک پرایک پوسٹ بڑھائی جس میں لوگوں کو چینی کے بجائے گڑ استعمال کرنے پر مائل بلکہ مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی، لکھا تھا ”اس سے آپ کا پیسہ 15 سرمایہ داروں کی جیب میں جانے کے بجائے پچاس لاکھ غریب کسانوں کو ملے گا۔“

ہم ان دونوں اصحاب کی بہت عزت کرتے ہیں۔ اول تو یہ دونوں سادات میں سے ہیں اور دوم ہماری ان سے واقفیت نہیں ہے اور ہم ہر اجنبی کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں (واقف کار موقع ہی نہیں دیتے ) ۔ ہم خود ہی عابدی صاحب سے پوچھ لیتے ہیں کہ انہوں نے گاؤں دیہات کے لوگوں کو اور وہ بھی ”شہید رانی“ کی رعایا کو اتنا بے وقعت اور کم مایہ جانا کہ وہ جہاز اڑانے جیسا چھوٹا کام کریں یا ان کا اشارہ ائر کنٹرول ٹاور اور جہاز کے تکنیکی عملے کی جانب تھا جن کی مبینہ غفلت کی وجہ سے حالیہ فضائی حادثہ پیش آیا؟ عموماً مسافروں کو کیبن کے عملے سے سابقہ پڑتا ہے، اور وہ اگر گاؤں، دیہات کے ہوں بھی تو زیادہ سے زیادہ ان کی شخصیت، لب و لہجہ یا جذبہ خدمت گزاری کی کمی عابدی صاحب کی شہری حساسیت پر گراں گزر سکتی ہے، جس سے آسمان تو گر سکتا ہے، جہاز نہیں۔

اب آ جائیے، ان حاضر سروس شاہینوں پر جن کے جھنڈ کے جھنڈ قومی فضائی کمپنی کو ”پہاڑوں کی چٹانیں“ سمجھ کر ان پر نشیمن بنائے بیٹھے ہیں۔ یہ سب کے سب کیا شہروں کے پروردہ ہیں؟ عابدی صاحب سے استدعا ہے کہ آدمی کے نکمے یا کارآمد ہونے کا اندازہ اس کے ڈومیسائل سے نہیں، کارکردگی سے لگانا چاہیے۔ نجی فضائی کمپنیوں کے جو جہاز حادثات کا شکار ہوتے ہیں، کیا ان کا عملہ بھی ”شہید رانی“ کے گاؤں، دیہات سے بھرتی ہوتا ہے؟ مزید برآں، یہ جو آئے دن ائر فورس کے جیٹ فضائی کرتب دکھانے کی مشق کے دوران گر کر تباہ ہو جاتے ہیں، اس کی وجہ کیا عملے کا گاؤں، دیہات سے تعلق ہے یا ان کی بھرتی بھی ”شہید رانی“ کے کھاتے میں ہے؟

آئیے، اب آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنے کے بجائے، گڑ کے کڑاہ میں ڈبکیاں لگاتے ہیں۔ افضال سید نہایت عمدہ شاعر ہونے کے باوجود ایک نفیس اور شریف النفس انسان ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کے سیاستدان، صنعت کار اور کھاد سے لے کر دلیہ تک بنانے والی قوت اتنی سادہ لوح اور عوام اتنے با اختیار ہیں کہ جس کا جی چاہے چینی کے کفران نعمت کا مرتکب ہو اور کھلے بندوں گڑ خریدتا پھرے؟ واہ، افضال صاحب واہ! بقول غالب ”اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔“

عابدی صاحب گاؤں، دیہات کے سفر کا خوب تجربہ رکھتے ہیں مگر شاید وہاں کے رہنے والے انہیں اپنی صلاحیتوں سے متاثر نہ کر سکے، افضال صاحب کے بارے میں اغلب امکان یہی ہے کہ وہ کبھی اس قسم کی حرکت، یعنی گاؤں، دیہات کے سفر کے مرتکب ہوئے بھی ہوں گے تو کوئی نظم ہی کہتے رہے ہوں گے، گڑ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی نوبت ہی نہ آئی ہوگی۔ خود ہم پر گاؤں، دیہات کے سلسلے میں یہ مصرع صادق آتا ہے، ”گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں“ بچپن میں گاؤں جاتے تو گنا پیلنے اور گڑ بنانے کا عمل ہمارے لیے خاص دلچسپی کا باعث ہوتا۔

تازہ رو (گنے کا رس) پیتے اور بڑی بڑی کڑہائیوں میں شیرہ گرم ہوتے اور گڑ بنتے دیکھتے۔ پھر ایک مرتبہ محض باچھیں چھلوانے یعنی گنا چوسنے پر اکتفا کرنا پڑا تو ہم نے بیلنے پر جانے کی ضد کی، معلوم ہوا کہ اب کے برس گنا پیلنا ممکن نہیں۔ وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ ڈپٹی کمشنر نے منع کیا ہے۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ انگریز نے ایک کثیرالمقاصد آلہ (کار) ایجاد کیا ہے جسے ڈی۔ سی کہتے ہیں جو کہ بیک وقت جج، جیوری اور جلاد کا کام دیتا ہے۔

آپ اگر اب بھی نہیں سمجھے تو جناب ماجرا یہ ہے کہ، شوگر مل لگانے کی اجازت سیاسی اثر و رسوخ کی بنا پر ملتی ہے، محض گنا کاشت کرنے یا چینی کی صنعت سے متعلق مہارت و دلچسپی کی بنیاد پر نہیں۔ شوگر مل لگ جانے کے بعد اگر علاقے کے ہما شما کاشتکار اپنا گنا خود ہی پیل کر گڑ اور شکر بناتے رہیں تو مل مالکان کیا وہاں مکھیاں اڑانے کی خدمات انجام دیں؟ چینی بنانے کے لیے خام مال یعنی گنا درکار ہے، لہٰذا اس سے آسان طریقہ کیا ہو سکتا ہے کہ انتظامیہ کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا جائے، اور کاشتکاروں کو صدیوں پرانی روایت کو ترک کرنے پر مجبور کرنے کی خاطر گنا پیلنے پر پابندی عائد کردی جائے۔ روگردانی کرنے والوں کو گرفتار اور گڑ بنانے کے ساز و سامان کو ضبط کر لیا جائے۔

بات یہاں تک محدود رہتی تب بھی کم ظلم نہیں تھا، مگر صاحب اجارہ ایک مرتبہ قائم ہو جائے تو اس کا دائرہ کار پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ مل مالکان کا گنے کی خریداری پر اجارہ کیا قائم ہوا انہیں لگا کہ کسانوں کو گنے کی قیمت ادا نہ کی جائے تو یہ کون سے ایوان عدل کی زنجیر ہلا سکتے ہیں اور ان کی کیا شنوائی ہوگی، چنانچہ بات ایک فصل کی قیمت اگلے برس، اور پھر اگلے سے اگلے اور کبھی ادا نہ ہونے پر منتج ہوئی۔ کاشتکاروں نے ڈیڑھ ہوشیاری دکھائی اور پلے سے زیادہ کرایہ ادا کر کے گنا دور پرے کی ملز کو اس امید پر بیچنا شروع کیا کہ وہاں اجارے کا ڈنڈا نہ چلے گا اور دو پیسے کم میں سہی پہلے آئیے، پہلے پائیے کے اصول پر فصل بیچ کر اپنی رقم وصول کر لیں گے۔

مگر ہوا یہ کہ شوگر ملز کے کارٹل (مجرمانہ کٹھ) بننے لگے اور سب ہی ایک رنگ میں رنگ گئے، یعنی کاشتکاروں کو قیمت کی ادائیگی من مانے اوقات میں جاری رہی۔ اگلی منزل گنے کی ایک سے دوسرے ضلع میں نقل و حرکت پر پابندی کی صورت میں ظاہر ہوئی، اگر ایسا کرنا قانوناً ممکن نہ ہو تو علاقے کے تھانیدار سے کہہ کر گنا لے جانے والے ٹرک اور ٹرالیاں زبردستی کسی زورآور کی شوگر مل کی جانب موڑی جانے لگیں۔

صوبہ سندھ میں تو صورتحال یہ ہے کہ بڑے بڑے ساہوکار ہم ایسے ہیچ مداں کی منتیں کرتے ہیں کہ کہیں سے ایک آدھ بھیلی بغیر کیمیکل ملا گڑ مل جائے کہ نظام ہاضمہ کے لیے اکسیر تصور کیا جاتا ہے۔ ہم اس سلسلے میں خاص احتیاط یہ برتتے ہیں کہ بھیلیاں بہت بڑی اور نوکیلی نہ ہوں کہ شہر والوں کا کچھ ٹھیک نہیں کہ یہ نظام ہاضمہ کی اصلاح کس سرے سے شروع کریں۔

افضال سید صاحب سے اتنا عرض کرنا ہے کہ چینی کے تاجروں کے منافع میں تخفیف کی خاطر گڑ کی خریداری اسی طرح ہے کہ جیسے ”کھائیں گڑ اور گلگلوں سے پرہیز۔“

اب یہ دونوں سادات آپس میں فیصلہ کر کے بتائیں کہ گاؤں، دیہات والے کہاں جائیں؟ پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی برخواستگی کے احکام کے بعد آثار یہی بتاتے ہیں کہ اگلی باری پی۔ آئی۔ اے کی ہوگی اور ”شہید رانی“ کے بھرتی کردہ تمام گاؤں، دیہات والے فارغ کر دیے جائیں گے، مگر اس تمام صورتحال میں ایک تشویش کا پہلو یہ ہے کہ گاؤں، دیہات والوں کے ناقدین کہیں گڑ کھا کر نہ مر جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments