امیونٹی کا کاروبار


ہر بحران اپنے ساتھ کاروبار کے نئے مواقع بھی لے کر آتا ہے۔ 1918 کے سپینش فلو کے دوران ایک اشتہار مشہور زمانہ وکس ویپر رب کا بھی تھا۔ وکس کا دعوی تھا کہ اس کو چھاتی پر اور ناک پر ملنے سے فلو ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کا علاج فروخت کرنے والوں میں وکس کا مقابلہ طرح طرح کے ایسے نسخوں سے تھا جیسے چلغوزے کے درخت کا رس نکال کر پئیں، ملر کمپنی کا جراثیم کش سانپ کا تیل، کونین برومائیڈ، پودینے کی گولیاں اور یہ اشتہارات اخباروں میں آیا کرتے تھے۔

اور تو اور بیل ٹیلیفون والے اس وبا میں اپنی پروڈکٹ مارکیٹ کرتے نظر آئے کے اگر آپ آئسولیشن میں ہیں تو خود کو تنہا مت سمجھیں اور بیل کمپنی کے فون سے اپنے پیاروں سے جڑے رہیں۔ سب سے زیادہ دیسی نسخہ جس کو بہت پذیرائی ملی وہ پیاز کھانے کا تھا۔ لوگ دعوی کرتے تھے کہ اس سے امیونٹی سسٹم مضبوط ہوتا ہے اور ہر بیماری میں شفا ملتی ہے۔ مختلف قسم کی چائے اور قہوے والے بھی میدان میں اتر آئے اور امیونٹی مضبوط کرتے پائے گئے۔

مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اس فلو نے آخر کار 50 ملین لوگوں کی جان لے لی۔ ان میں سے بیشتر لوگوں نے پیاز بھی کھائے ہوں گے اور قہوے بھی پئے ہوں گی۔ ۔ ۔ آج سو سال گزرنے کے بعد کیا آپ کو نہیں لگتا کہ پھر سے وہی ملتے جلتے نسخے مارکیٹ میں اتر آئے ہیں۔ انسان کی ذہنی ارتقاء کا سفر بالکل رکا سا محسوس ہوتا ہے۔ کوئی آپ کو بھاپ سے ٹھیک کر رہا ہے، تو کوئی نمک کے غرارے کرا رہا ہے، کوئی ادرک اور لہسن کا رس پلا رہا ہے تو کوئی سنا مکی کا قہوہ۔ (ویسے سنا مکی پر ایک کالم الگ سے بنتا ہے ) ۔ ہر کوئی کہتا ہے اپنا دفاعی نظام اور مضبوط کرو۔ آئیے دیکھتے ہیں کیا یہ دفاعی نظام یا امیون سسٹم مزید مضبوط ہو سکتا ہے؟ اور اس کا کوئی فائدہ بھی ہے یا الٹا نقصان ہے؟

امیونٹی کے دو حصے ہیں۔ سب سے پہلا حصہ جلد، ہوا کی نالی اور بلغم جیسی اشیاء ہیں جو انفیکشن کے خلاف رکاوٹ کا کردار ادا کرتی ہیں۔ جب ایک بار وائرس ان سے گزر آئے تو پھر اس کو جبلی امیون ریسپانس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں وہ کیمیکل اور خلیے ہیں جو فٹافٹ الارم بجا کر اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب یہ کافی نہیں ہوتا تو پھر اگلا حصہ جو ایڈاپٹو امیون سسٹم ہے، وہ حرکت میں آتا ہے۔

اس میں خلیے اور پروٹین (اینٹی باڈی) ہیں جن کو شروع ہونے میں 5 سے 15 دن لگتے ہیں۔ بہت ساری انفیکشن کا ڈیٹا بیس ہمارے دماغ میں محفوظ ہوتا ہے۔ اگر وائرس یا انفیکشن پرانا ہے اور اس کے خلاف دفاعی نظام پہلے حرکت میں آ کے قابو پا چکا ہے تو فوراً اس کو مارنے والی اینٹی باڈیز حرکت میں آجاتی ہیں۔ ویکسین اصل میں یہی کام کرتی ہے۔ کسی بھی وائرس یا بیکٹیریا کی بہت تھوڑی سی مقدار جسم میں داخل کر کے امیونٹی کو اس پر قابو پانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ اور جب بھی وہ دوبارہ حملہ آور ہو ڈیٹا بیس میں موجود انفارمیشن سے اینٹی باڈی فوراً اسے ختم کر دیتی ہیں۔

کیا امیون سسٹم کو مضبوط کرنے کا مطلب اس ریسپانس کی شدت میں اضافہ کرنا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم خود ایسا نہیں کرنا چاہیں گے۔

ایسا کیوں؟ اس کے لئے نزلے کی علامات کو بطور مثال دیکھ لیتے ہیں۔ جسم درد، بخار، ذہن پر چھائی دھند، بہت سا بلغم۔ ان میں سے کوئی بھی علامت وائرس کا کام نہیں۔ ہمارے اپنے جسم کے دفاعی نظام کی حرکت ہے۔

بلغم پیتھوجن کو خارج کرتی ہے۔ بخار سے درجہ حرارت کا اضافہ جراثیم کے لئے ناموافق حالات پیدا کرنے کا طریقہ ہے جس میں یہ تیزی سے بڑھ نہ سکے۔ درد اور نڈھال ہونے کی وجہ وہ سوزش پیدا کرنے والے کیمیکل ہیں جو رگوں میں دوڑتے پھرتے ہیں اور امیون سسٹم کی راہنمائی کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے اور یہی علامات ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم آرام کریں اور جسم کو سنبھلنے کا موقع دیں۔

بلغم اور یہ کیمیائی سگنل صحت مند امیون ریسپانس کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ عمل ہمیں نڈھال کر دینے والا ہے۔ اس لئے ہم نہیں چاہیں گے کہ اس میں اضافہ ہو۔ اور پیتھوجن جیسا کہ کووڈ 19 ہو، اس نظام کو ویسے ہی فعال کر دیتے ہیں۔ اگر بالفرض کوئی اس کی ناب کو زیادہ آگے تک گھما سکے تو اس کا مطلب زیادہ تیزی سے بہتی ناک اور زیادہ اونچا بخار ہو گا (مجھے یقین ہے آپ ایسا نہیں کرنا چاہیں گے ) ۔

دوسرا یہ کہ آپ کی صحت امیونٹی سسٹم کے توازن میں ہے نا کہ اس کی زیادتی میں۔ اگر ایڈاپٹو امیون سسٹم زیادہ حساس ہو جائے تو یہ بہت ناخوشگوار ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر الرجی ضرورت سے زیادہ امیون سسٹم کا کام ہے۔ یہ بے ضرر بیرونی اشیاء، جیسا کہ پولن، کو ضرر رساں سمجھ لیتے ہیں۔ اور ان کو دیکھتے ہی امیون ریسپانس آن کر دیتے ہیں جیسا کہ زیادہ چھینکیں، آنکھوں سے پانی اور تھکن۔ اپنے دیسی علاج دینے والوں کے ذہن میں ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔

اب آئیے ان تمام نسخوں کی طرف جو دعوی کرتے ہیں کہ یہ نا صرف آپ کی امیونٹی بڑھاتے ہیں بلکہ کئی ایک تو کرونا کا خاتمہ بھی کرتے ہیں۔ آپ پیاز کھائیں، یا ادرک لہسن کا رس پئیں، بھاپ لیں یا کلونجی کو شہد میں ڈال کر استعمال کریں، یہ سب اچھی چیزیں ہیں اور نارمل مقدار میں ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، مگر اپنے ذہن کو فالز امپریشن نا دیں کہ آپ وائرس سے محفوظ ہو گئے ہیں۔

امیونٹی کو برقرار رکھنے کے لئے سب سے اہم کام وہ ہیں جن میں کوئی دیسی یا ولایتی نسخہ نہیں :

1۔ ذہن کو آرام دیں، خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھیں۔ ایک ڈپریسڈ یا اوور سٹریسڈ انسان کا امیونٹی سسٹم بیک فٹ پر چلا جاتا ہے۔

2۔ نیند پوری کریں اور کوشش کریں کہ فکس ٹائم بنا کر روز اس کی پابندی کریں۔ اچھی نیند سے مسلز کو آرام ملتا ہے اور ذہن بھی سلیپ موڈ میں آرام کرتا اور اگلے دن کے لئے تازہ دم ہو جاتا ہے۔

3۔ ورزش مشکل ہے تو چہل قدمی کریں، مگر ضرور کریں۔
4۔ دھوپ لیں اور تازہ ہوا میں سانس لیں۔
5۔ نارمل غذا کھائیں اور کچھ نیا کرنے کی ضرورت نہیں۔
6۔ تمباکو نوشی اور الکحل سے دور رہیں۔
7۔ اپنی شوگر اور بلڈ پریشر کو درست حد میں قائم رکھیں۔

ہر سنی سنائی بات پر یقین نا کیا کریں۔ وہ ڈاکٹر جو ویڈیو میں آپ کو سنا مکی کا قہوہ پلا کر شرطیں لگا رہا ہے کہ ایک دن میں کرونا ختم ہو جائے گا ورنہ آپ کو 2 کروڑ روپے دے گا کیا آپ کو کو اس کا نام پتا معلوم ہے؟ اور اگر آپ ٹھیک نا ہوئے تو کروڑوں روپے اس سے کیسے وصول کرنے ہیں؟ اور آخری بات وہ ڈاکٹر بھی ہے یا نہیں؟ آخر برطانوی گورنمنٹ کیوں اتنی بے وقوف ہے کہ اس گوہر نایاب سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہی؟ ہر ڈاکٹر وبائی بیماریوں کا ماہر بھی نہیں ہوتا۔ یہ ایک سپیشلائزڈ سٹڈی ہے۔ باقی آپ کی مرضی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments