وہ جہاز جو بھارت نہ لوٹا


”بیٹا تو کل بھارت آ جا بچوں کو لے کر تیس چالیس سال سے نہیں آیا“۔ یہ سُن کر نہ چاہتے ہوئے بھی میرے 71 برس کی عمر میں اتنے آنسو نکلے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ 91 برس کی عمر میں والدہ کی یادداشت کمزور ہو گئی تھی۔ میری اور اُن کی ملاقات 10 سال پہلے ہوئی تھی، جب میں آخری دفعہ بھارت گیا۔ یہ باتیں اُنھوں نے اپنے انتقال سے 20 دن پہلے مجھ سے فون پر کہیں۔فون پر بات چیت صرف اتنی ہوئی کہ وہ بول تو سکتی تھیں مگر اُن کی سننے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی۔

وہ مجھ سے30 منٹ تک یہی کہتی رہیں کہ بچوں کو لے کر آ جا۔ میرا بھائی اُن کو کہتا رہا کہ ”اماں کہہ رہے ہیں کہ آ رہا ہوں کل“ مگر وہ سُن نہیں سکتی تھیں۔ پھر بھی میں اُن کی ہر بات کا جواب دیتا اور اُن کی آوازسُن کر میرے کانوں کو جو راحت ملتی ،وہ صرف میں ہی جان سکتا ہوں۔ بات چیت تو اصل میں 3 برس پہلے ہوئی جب وہ سُن سکتی تھیں۔ اِس کے بعد تو میں صرف اُن کی آواز سنا کرتا تھا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ سُن نہیں سکتیں، میں اپنی آواز اُن کو سنانے کی کوشش کرتا۔

میں 1953ء میں پاکستان گھومنے پھرنے آیا اور پھر یہیں رک گیا کیونکہ گھر والوں نے طے کیا کہ ایک ایک کر کے سب آئیں گے۔ سب ایک ایک کرکے آئے بھی مگر رُکا کوئی نہیں۔ 1969ء میں والد اور والدہ بھی واپس چلے گئے اور اپنے گھر کا واحد فرد میں تھا جو اکیلا پاکستان میں رہ گیا تھا۔ یہاں ایک اخبار میں نوکری کیا کرتا تھا۔ اپنے گھر والوں کو ہمیشہ لکھتا تھا کہ مجھے یہاں اکیلا بھیج دیا جبکہ سب نے میرے بعد آنے کا وعدہ کیا تھا، بس اب جلدی سے آجائیں۔

میں ہمیشہ پانی کے جہاز کے آخری سفر کو یاد کرتا ہوں جب جنوری 1970ء میں بھارت سے پاکستان آ رہا تھا۔ میرے بچے، میں اور میری بیوی جیسے ہی بحری جہاز پر سوار ہوئے تو باقی خاندان والوں نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔

ماں نے اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر دیا تھا، دو دن کے سفر میں اِس ہی کو دیکھ کر روتا رہا کیونکہ جب رخصت ہونے کا وقت آتا ہے تو ہمیشہ تکلیف دہ ہی ہوتا ہے بلکہ بہت زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ دوبارہ ملاقات کب ہو گی اور یہاں تو معاملہ دو شہروں کا بھی نہیں، دو ملکوں کا تھا جن کے بارے میں معلوم نہیں کہ کب اِن دونوں کے درمیان جنگ کے بادل اُمڈ آتے ہیں اور کب چھٹ جاتے ہیں اب بجلی کڑکی کہ اب کڑکی۔

اپنی ماں سے آخری بار 2 اکتوبر کو بات ہوئی اور 24 اکتوبر کو اُن کا انتقال ہو گیا۔ دوستوں نے کہا کہ ہم ویزا دلوا دیتے ہیں مگر میری صحت اِس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں کراچی سے اسلام آباد اور پھر کراچی یا اسلام آباد سے دبئی اور دبئی سے بھارت جا سکوں اگر کراچی سے ویزے ملتے اور کراچی سے دبئی براہ راست فلائٹ جاتی تو میں اپنی ماں کا آخری دیدار ضرور کرتا کیونکہ میں تو اپنے والد کا بھی آخری دیدار نہیں کر سکا تھا۔ 1970ء میں اُن کا انتقال ہوا جب سانحہ بنگلہ دیش سے قبل بھارت اور پاکستان کے درمیان صرف آمد و رفت ہی نہیں بلکہ ٹیلی فون اور خط و کتابت کے راستے بھی بند تھے۔ اپنے والد کے انتقال کی اطلاع اُن کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے 20 دن بعد ملی۔

اُس زمانے میں بہت کم لوگ روزگار کمانے بیرون ملک جاتے تھے۔ گھر والوں نے دبئی، سعودی عرب اور لندن میں جاننے والوں کی تلاش شروع کی، آخر میں پتا چلا کہ ایک دوست کے بھائی سعودی عرب میں رہتے ہیں۔ گھروالوں نے انھیں خط لکھا۔ اُنھوں نے سعودی عرب سے کراچی اپنے ایک عزیز کو اطلاع دی۔ اِس کے بعد اُن کے عزیز نے ہمیں اطلاع دی اور اِس طرح والد کے انتقال کی اطلاع ملنے میں 20 روز لگ گئے۔ اُن کی بیماری اور اُن کے آخری وقت کا تو ہمیں کچھ معلوم ہی نہیں ہو سکا کیونکہ میں اکیلا پاکستان میں تھا اور میرے تمام رشتہ دار، دوست احباب بھارت میں تھے اور مزید برآں دونوں ممالک میں کشیدگی جاری تھی۔

 والدین کے آخری ایام میں اُن کی خدمت کرنا تو درکنار میں ان کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکا۔ والد سے ملاقات اُن کے انتقال سے 2 سال قبل ہوئی جب میں نے آخری مرتبہ پانی کے جہازسے سفر کیا اور والدہ سے آخری ملاقات اُن کے انتقال سے قریب 10 سال قبل ہوئی جب آخری دفعہ ہوائی جہاز میں سفر کیا تھا۔

ہر وقت ایک ہی چیز ذہن میں رہتی ہے کہ جب ہوائی جہاز میں بھارت جاتے تھے، تو صرف آٹھ منٹ بعد اعلان ہوتا تھا کہ ہم بھارت کی فضائی حدود میں داخل ہو گئے ہیں۔ یہ آٹھ منٹ اسّی دن کے برابر ہیں جو اسّی سال کے برابر لگتے ہیں۔ بس جب بھائی کا انتقال ہوا تو ہم فوراً کراچی میں بھارتی سفارت خانے پہنچ گئے۔ اس وقت ہوائی جہاز سے بھی براہ راست بمبئی جاتے تھے اور کراچی سے ہی ویزا ملتا تھا اور ہم جوان بھی تھے۔ کچھ اور مشکلات ہوتیں تو وہ بھی برداشت کر لیتے مگر اس بیماری اور عمر میں ہم کراچی سے اسلام آباد اور دبئی ایرپورٹ (جہاں کبھی کبھی چھ چھ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے) اور وہاں سے پھر بمبئی یا دہلی نہیں جا سکتے۔ صحت اب اس چیز کی اجازت نہیں دیتی کہ یہ آٹھ منٹ کا سفر اسّی دنوں میں طے کیا جائے۔

(ضمیر نیازی صاحب نے یہ گفتگو اپنے انتقال سے کچھ ماہ قبل کراچی میں بی بی سی کے نمائندے محمد ارسلان سے کی۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments