سنا مکی اور کلونجی علاج نہیں ہیں



رفع حاجت کے بعد صابن سے ہاتھ دھونا ضروری ہے ورنہ اسلام میں تو کسی صابن کا ذکر نہیں تین بار پانی سے ہاتھ دھو لینے سے انسان پاک ہو جاتا ہے البتہ سائنس کہتی ہے کہ جراثیم صرف پانی سے نہیں مارا جاسکتا صابن کا استعمال ضروری ہے اسی طرح کسی عالمی وبا کے خاتمے کے لیے سنا مکی نامی پتوں پر انحصار ممکن نہیں جو کہ درحقیقت قبض کشا دوا کے طور پر حکمت کے شعبے میں استعمال کیے جاتے رہے ہیں اور علم حکمت میں کتنی تحقیق اور ترقی ہو رہی ہے اس سے تو سب ہی بخوبی واقف ہیں۔

مستند حکیموں کے مطابق بھی ان پتوں کا غیر ضروری اور غیر متعلقہ استعمال انسان کو موت کے منہ میں لے جانے کے مترادف ہے کیونکہ یہ ایک قبض کشا شے ہے جسے بار بار استعمال کرنے سے اسہال کے ذریعے جسم سے پانی اور نمکیات کا اخراج ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم کمزور ہو کر اپنی قوت مدافعت بھی کھو دیتا ہے۔ ایسا جسم جس میں پانی اور نمکیات کی کمی ہو وہ باعث کمزوری کورونا اور دیگر بیماریوں کے لیے ایک آسان شکار ثابت ہوگا۔ نتیجتاً بیماری اور وائرس سے لڑنے کی طاقت نہ ہونے کے سبب موت کے منہ میں جانا ہر گز کوئی تعجب کی بات نہیں۔

کچھ عرصہ پہلے بہت وثوق سے یہی بات کلونجی کے لئے بھی کہی جارہی تھی کہ کلونجی میں بھی ہر بیماری کا علاج ہے البتہ سائنسی تحقیق کے بعد ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے جس سے یہ کہا جاسکے کہ روزانہ کلونجی پھانکنے سے کوئی سپر مین بن سکتا ہے یا کوئی ان دیکھی روحانی دیوار آپ کو اپنے حصار میں لے لے گی جس سے ٹکرا کر وائرس جہنم رسید ہو جائے گا البتہ مقدار زیادہ ہونے کہ صورت میں خود آپ کی ذات کو نقصان ضرور ہو سکتا ہے۔

سوچنا چاہیے کہ اول دن سے ایسی بونگیاں کیوں ماری جارہی ہیں؟ پہلے کہا جا رہا تھا کہ یہ سب ایک ڈرامہ ہے، ایک جھوٹ ہے، امت مسلمہ کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کی کفار اور یہودیوں کہ سازش ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہوئی کہ اس نام نہاد سازش سے مرنے والے زیادہ تر کافر ہی نکلے اب کافر اتنے نالائق تو ہیں نہیں کہ ہمیں مارنے کے چکر میں خود اپنے عوام کا قتل کر بیٹھیں اور چونکہ لاک ڈاؤن کے وقت سب کو ہی خود کو باجماعت نمازی ثابت کرنا تھا یا عید پر نئے جوڑے پہن کر وائرس کو ٹھینگا دکھانا تھا جس کی بدولت اب گھر گھر میں ایک نہ ایک شخص اس موذی وائرس کی سعادت حاصل کرچکا ہے تو اب یہ تو ثابت ہوگیا کہ یہ ہر گز کوئی ڈرامہ نہیں ہے لیکن پھر بھی اپنا منجن بیچنے والے انسانی جانوں سے کھلواڑ کرنے سے باز نہیں آرہے کبھی پیاز کبھی کلونجی اور کبھی سنا مکی کا جھانسہ دے کر عوام کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔

اور عوام بھی ایسی بھولے کہ ہر ایرے غیرے کو مرشد بنا کر پوجنے پر تل جاتے ہیں۔ اس قسم کے مشورے دینے والے عام طور وہی جہالت کے ٹوکرے ہیں جن کو پہلے اس وائرس پر یقین نہیں تھا اور اب اپنی آنکھوں سے لوگوں کو مرتا دیکھ کر بھی اپنی جہالت پر شرمندہ نہیں بلکہ اس میں روز ایک نئے احمقانہ مشورے کا اضافہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب سائنسی طریقہ کار میں کسی دوا یا ویکسین کو کئی بار کسی جانور یا رضاکارانہ طور پر دیے جانے والے انسانی جسم پر آزمایا جاتا ہے کئی مہینوں اس علاج سے ہونے والے اثرات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اس کے بعد بھی دوا ایک مخصوص مقدار یا صورتحال میں تجویز کی جاتی ہے۔

دیسی ٹوٹکے آزما کر اپنی جان لینے کی کوشش کرنے کے بجائے ملکی اور عالمی سطح پر تشکیل دی جانے والی احتیاط کو مدنظر رکھ کر زندگی گزاریں۔ ایسے ممالک کی مثال اپنائیں جنھوں نے بتائی گئی احتیاط اپنا کر اس موذی وائرس سے بالآخر جنگ جیت لی جو کہ یقیناً سنا مکی یا کلونجی کے استعمال سے ممکن نہیں تھا۔ عوام اپنا دماغ استعمال کریں اور ان لوگوں پر یقین نہ کریں جن کو اول اول تو یہ وبا ہی جھوٹ لگی اور اپنی ہٹ دھرمی اور جہالت کے زعم میں وہ اس وبا کو پھیلاتے رہے اور اب بھی الٹے سیدھے مشورے دے رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کو مار کر آپ کہ موت کو خدا کی مرضی کا نام دے کر اپنی جان چھڑا لیں گے۔ شروع سے اب تک کے حالات کا جائزہ لیں حقیقت خود آپ کے سامنے آ جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments