بچوں کے نفسیاتی مسائل


گزشتہ مضامین میں میں ہم نے بچوں کے نفسیاتی مسائل اور ان میں سے سب سے پہلے نفسیاتی مسئلے سکول فوبیا پر سیر حاصل گفتگو کی آج ہم بچوں کے نہایت ہی اہم نفسیاتی مسئلے۔ بچے کی پڑھنے، لکھنے کی اہلیت میں کمی، جیسے مسئلے پر گفتگو کریں گے۔

اس مرض کو dyslexia کہتے ہیں۔ dys کا مطلب ہے دشواری اور lexia کا مطلب لکھئے ہوئے الفاظ۔ تو dyslexia کا مطلب ہے پڑھنے یا لکھنے کی دشواری۔ اس لفظ کو سب سے پہلے جرمن ماہر امراض چشم آر برلن نے متعارف کروایا۔ یہ مرض بچوں میں 6 سے 8 سال کی عمر میں محسوس ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ مرض دماغ کے دائیں یا بائیں حصے میں نقص کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ مارچ 2005 میں ویلز کالج آف میڈیسن میں ماہرین حیاتیات نے اس مرض کی وجہ بننے والا جین دریافت کیا جس کا نام MiAA 0319 ہے۔

چند اہم علامات • ایسے بچے پنسل کو عجیب طرح سے پکڑتے ہیں۔ • ان کا خط ناقص ہوتا ہے۔ • الفاظ نا مکمل لکھتے ہیں۔ • تحریر میں الفاظ بڑے چھوٹے کر کے لکھتے ہیں۔ •الفاظ کو پڑھنے اور لکھنے میں غلطی کرتے ہیں مثلاً n کو u اور d کو b اور w کو M۔ • دن / مہینوں کے نام ترتیب سے نہیں یاد کر سکتے۔ • رموز اوقاف punctuation کو نظر انداز کرتے ہیں۔ • t حرف کو اکثر نظر انداز کرتے ہیں مثلاً train کو rain لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ •ایسے بچے جن میں ڈس لیکسیا کی وجہ سے لکھائی متاثر ہو انھہیں ”ڈس گرافیا“ کہتے ہیں۔

بچوں کی پڑھنے، لکھنے اور الفاظ کو سمجھنے کی اہلیت میں کمی

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں قسط نمبر 3 میں ہم درج بالا نفسیاتی مسئلے سے متعارف ہوئے تھے۔ اس قسط میں ہم بچوں کو اس مرض سے بچانے اور مبتلا بچوں کو اس مرض کو شکست دینے کے حوالے سے والدین، اساتذہ اور معاشرے کے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تینوں کردار ایک بچے کی شخصیت کو بہت متاثر کرتے ہیں۔

والدین کا کردار

ماہرین کے مطابق یہ مرض والدین سے بچوں میں بھی منتقل ہوتا ہے۔ * بچوں کی تربیت اور شخصیت کو سنوارنے اور بگاڑنے میں والدین کا کلیدی کردار ہے۔ * والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہوں یہ تب ہو سکتا ہے جب آپ ان کے ساتھ خاص وقت گزاریں گے۔

* اس مرض میں مبتلا بچے میں خود اعتمادی کافی کم ہوتی ہے والدین کو چاہیے کہ ان کا حوصلہ بنیں اور انھیں بتائیں کہ اس مرض میں مبتلا بہت سی مشہور شخصیات مثلاً آئن سٹائن نے اس مرض کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔ * اپنے بچوں میں حوصلہ بڑھانے کے لئے ان کی کامیابیوں کو منائیں کریں اور ناکامیوں پر ہمت بڑھائیں۔ * ماہرین کہتے ہیں کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو کہانیاں، اسباق صرف سنوائیں اس سے کیا ہوگا کہ بچوں کو الفاظ کی آواز شناسی ہوگی۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ”ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے“ ۔

اساتذہ کا کردار

بچے کی تربیت میں دوسرا اہم اور آئیڈیل کردار اساتذہ کا ہے۔ کیونکہ مذکورہ مسئلے میں بچے کا زیادہ تر واسطہ والدین کے بعد استاد محترم سے پڑتا ہے۔ * سب سے پہلے استاد محترم کو چاہیے کہ بچے سے جڑے مسئلے کو سمجھے کہ بچہ کیوں نہیں اچھی کارکردگی دکھا رہا۔ بچے کی کمزوریوں کو جاننے کی کوشش کرے۔ * مارنے یا ڈرانے سے یہ مسئلہ کبھی نہیں حل ہو سکتا۔ مارنے یا ڈرانے سے بچے کی تخلیقی سوچ پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

اس مرض کا حل

* حرفوں کی آواز شناسی کروائیں۔ * شروع شروع میں انھیں پڑھانے کی بجائے اسباق، کہانیاں صرف سنوائیں۔ * حرفوں کو ملا کر الفاظ بنانے والی گیمیں کھلائیں۔ * پڑھاتے وقت بچوں کو اپنی طرف متوجہ رکھیں۔ * آواز صاف اور اونچی رکھیں تاکہ آپ کے منہ سے نکلے ہر حرف، الفاظ کی آواز مکمل سمجھ آئے۔

معاشرے کا کردار

معاشرے کا کردار انسان سے جڑے ہر مسئلے میں بہت ہی اہم ہے۔ بچے کا واسط زیادہ تر معاشرے سے پڑتا ہے چاہے وہ دوست ہو، ہمسایہ ہو، اور رشتے دار ہو۔ * تاہم معاشرے کو چاہیے کہ ان خاص بچوں کو ان کی کمی محسوس نہ ہونے دیں۔ *۔ ان خاص بچوں کا مذاق نہ اڑائیں۔ بلکہ اس کا حوصلہ بنیں اور مثبت سوچ رکھیں۔ ۔ ۔ اپنے بچوں کا خیال رکھیں اور پھلنے پھولنے میں ان کی مدد کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments