کورونا وبا: پاکستان پانچواں سوار بننے کا دعویدار


ملک میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کسی سرکاری ادارے کو خبر نہیں ہے کہ چند روز یا ہفتوں بعد وائرس کی ہولناکی کیا صورت اختیار کرے گی۔ ملک میں مسلسل دوسرے روز 6 ہزار سے زیادہ لوگ اس وائرس سے متاثر ہوئے اور مرنے والوں کی تعداد ایک سو افراد روزانہ سے بڑھ چکی ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا کورونا ٹیسٹ بھی پازیٹو آیا ہے۔ اور قومی اسمبلی میں کورونا کے بارے میں حکومت کی ناقص حکمت عملی کے خلاف اپوزیشن کا احتجاج جاری ہے۔
اس دوران وزیر اعظم عمران خان نے دو دلچسپ اعلان کئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اب وہ خود سماجی دوری کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کی نگرانی کریں گے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو جیل میں بند کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک ٹوئٹ میں عمران خان نے بھارت کو پیشکش کی ہے کہ وہ اسے غریب خاندانوں میں امدادی رقوم تقسیم کرنے کا نظام استوار کرنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ احساس پروگرام کے تحت پاکستان میں نو ہفتے کی مختصر مدت میں ایک کروڑ غریب خاندانوں میں 120 ارب روپے تقسیم کئے گئے ہیں۔ اور عالمی طور سے اس کاوش کو سراہا گیا ہے۔ عمران خان کو اصل پریشانی بعض امریکی یونیورسٹیوں کی اس رپورٹ سے لاحق ہوئی ہے کہ فوری امداد نہ ملنے کی صورت میں بھارت کے 34 فیصد خاندانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔ عمران خان اس سے یہ نتیجہ اخذ کررہے ہیں کہ احساس پروگرام کی طرز پر اگر بھارتی حکومت اپنے لوگوں کو نقد رقم فراہم کرنے میں ناکام رہی تو وہاں ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی کورونا کی بجائے بھوک سے مر جائے گی۔ اسی لئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان کا انسان دوست وزیر اعظم ایک ایسے ہمسایہ ملک کی حکومت کو تکنیکی امداد فراہم کرنے کی پیش کش کررہا ہے جس کی فوج لائن آف کنٹرول پر مسلسل جارحیت کا مظاہرہ کررہی ہے، مقبوضہ کشمیر کی ایک کروڑ آبادی کا جینا حرام کردیا گیا ہے اور ملک کی مسلمان اقلیت ہندو اکثریت کے ہاتھوں شدید تعصب اور تشدد کا سامنا کررہی ہے۔
عمران خان خود مودی کو ہٹلر ثانی اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو انتہا پسند ہندو توا پالیسی کی وجہ سے پورے خطے کے لئے خطرہ قرار دیتے رہتے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم گزشتہ کچھ عرصہ سے مسلسل یہ دہائی دیتے رہے ہیں کہ بھارت کسی بھی وقت پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے، عالمی برادری کو چوکنا رہنا چاہئے اور بھارت کو اس کے جارحانہ عزائم سے باز رکھنا چاہئے۔ اسی تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ گزشتہ اگست میں مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اس کو دو اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا اور انہیں وفاق کے زیر انتظام علاقے قرار دیا تھا۔ کشمیر کو ریاست کی حیثیت سے بھی محروم کردیا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو گزشتہ 10 ماہ سے شدید لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ شہری علاقوں میں اکثر کرفیو نافذ رہتا ہے اور لوگوں کو انٹر نیٹ اور فون جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ پاکستان کے شور مچانے اور شدید تنقید کے باوجود نہ تو نئی دہلی نے کوئی رعایت دینے کا عندیہ دیا ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر بھارت کے خلاف کوئی دباؤ دیکھنے میں آیا ہے۔
اس دوران پاکستان نے تواتر سے مذاکرات کرنے اور باہمی رضامندی سے کشمیر سمیت سارے معاملات طے کرنے کی پیش کش کی ہے جسے بھارت اسی شدت سے مسترد کرتا آرہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تو بھارت کو یہ دعوت بھی دی ہے کہ صرف کشمیر کے سوال پر بات چیت کرلی جائے تاکہ برصغیر میں تصادم کی صورت حال کو ختم کیا جاسکے۔ بھارتی حکومت اس قسم کی ہر پیش کش کو یہ کہہ کر مسترد کرتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا سرپرست ہے اور جب تک وہ دہشت گردوں کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرے گا بھارت پاکستان سے بات چیت نہیں کرے گا۔ اس سخت گیر مؤقف کی اصل وجہ مگر یہ ہے کہ بھارت نے ایک منصوبہ کے تحت مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیا ہے۔ ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی کرکے مقبوضہ کشمیر میں روزگار یا تعلیم کے لئے چند برس تک قیام کرنے والے لوگوں کو وہاں کا سکونتی ہونے کا حق دیا جائے گا۔ اس حکمت عملی سے بھارت مستقبل قریب میں کشمیر کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلمان آبادی کی وجہ سے پاکستان کے کشمیر پر دعوے کو کمزور کیا جاسکے۔
آبادی میں رد وبدل کے اس طریقہ کا چین اپنے صوبہ سنکیانگ میں تجربہ کرچکا ہے۔ وہاں مسلمان ایغور آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے سال ہا سال سے چین کے دیگر علاقوں سے ہان نسل کے لوگوں کو لاکر آباد کیا گیا ہے۔ ہان کو ایغور کے مقابلے میں چین کا وفادار سمجھا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی گروپ سنکیانگ میں ایغور لوگوں کے خلاف ریاستی جبر کی رپورٹیں سامنے لاتے رہتے ہیں۔ گزشتہ چند برس کے دوران کئی لاکھ ایغور باشندوں کو جبری طور سے کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ چین کا کہا ہے کہ یہ کیمپ حراستی مراکز نہیں ہیں بلکہ تربیت گاہیں ہیں جہاں لوگوں کی ذہنی پرداخت کی جاتی ہے۔ بھارت نے بھی ڈومیسائل قوانین میں ردو بدل کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے ایسے ہی منصوبہ کا آغاز کیا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ سمیت دنیا کا کوئی ادارہ یا ملک اس بھارتی استبداد کے خلاف آواز اٹھانے پر آمادہ نہیں ہے۔
پاکستان اور خاص طور سے وزیر اعظم عمران خان کی پرجوش تقریریں اور ولولہ انگیز ٹوئٹ عالمی ضمیر کے لئے صدا بصحرا ثابت ہوتے ہیں۔ ا س کے باوجود عمران خان میں انسانی ہمدردی کی اس قدر فراوانی ہے کہ وہ بھارت کو پاکستان کے ’کامیاب احساس پروگرام‘ کا ڈھانچہ فراہم کرنے کی پیش کش کررہے ہیں تاکہ بھارت کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھوکے مرتے شہریوں کو مالی مدد فراہم کرسکے۔ اس حوالے سے یہ نوٹ کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ بھارت کو انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) میں عالمی لیڈر کی حیثیت حاصل ہے۔ بنگلور کو بھارت کی سلیکون ویلی کہا جاتا ہے۔ امریکہ کی سلیکون ویلی کی آئی ٹی صنعت میں بھی بھارتی کمپنیوں نے کثیر سرمایہ کاری کی ہے۔ اس شعبہ میں بھارت کی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2019 میں بھارت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمد سے 130 ارب ڈالر کمائے تھے۔ ٹیکنالوجی میں اس مہارت کے حامل ملک کو عمران خان احساس پروگرام کی تکنیک فراہم کرکے بزعم خویش اس کے کروڑوں غریبوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچانا چاہتے ہیں۔
بھارت نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران میں اپنے عوام اور صنعت و حرفت کو مالی مدد دینے کے لئے 266 ارب ڈالر صرف کئے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم اس مد میں 8 ارب ڈالر صرف کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ اس فنڈ کی جو بھی مقدار ہو، یہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے علاوہ ورلڈ بنک اور ایشیا بنک سے مدد اور قرضوں کی صورت میں وصول کی جانے والی رقوم ہیں۔ ان کا بوجھ بہر حال ملکی عوام کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ اعداد و شمار کے مطابق اس رقم میں سے غریب عوام میں کل 117 ارب روپے تقسیم کئے گئے ہیں۔ یہ رقم غریب ترین خاندانوں کو فوری مدد کے طور پر 12 ہزار روپے فی خاندان کے حساب سے دی گئی تھی۔ مہنگائی کے موجودہ وقت میں اس رقم سے حاصل کی جانے والی سہولت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ عمران خان اس پروگرام کو شفافیت کی شاندار علامت قرار دیتے ہیں لیکن سپریم کورٹ میں کورونا وائرس کیس کی سماعت کے دوران اس حوالے سے شبہات سامنے آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ رقوم تقسیم کرنے کے لئے ملک بھر میں 17 ہزار مراکز قائم کئے گئے تھے جہاں غریبوں کو خود حاضر ہوکر رقم وصول کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ یہ اقدام ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب عالمی ادارہ صحت اجتماعات پر پابندی لگانے اور سماجی دوری قائم کرنے کی پرزور اپیلیں کررہا تھا۔ اب ملک کے وزیر اعظم سماجی دوری کے سرکاری قواعد پر عمل درآمد کروانے کے لئے جیلوں کے دروازے کھولنے کی بات کررہے ہیں ۔ حیرت ہے کہ اس اقدام سے حکومت کس طرح کورونا کی روک تھام کرے گی۔
وزیر اعظم کی طرف سے دشمن ہمسایہ ملک کو تکنیکی امداد کی فراخدلانہ پیش کش سے پہلے پاک فوج گزشتہ ماہ امریکہ کو ایک طیارہ بھر کر کورونا کا حفاظتی ساز و سامان بھجوا چکی ہے۔ یہ امداد اس وقت بھیجی گئی تھی جب ملک کے ڈاکٹر مناسب حفاظتی ساز و سامان نہ ہونے کی شکایات کررہے تھے اور مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود اس وائرس کا نشانہ بن رہے تھے۔ وزیر اعظم اور پاک فوج کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے وہ پرانی کہانی یاد آتی ہے جس میں چار گھڑ سوار سفر پر تھے کہ راستے میں گدھے پر سوار ایک شخص بھی ان کے ساتھ ہولیا۔ راستے میں کسی نے گھڑ سواروں سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔ گدھے پر سوار شخص نے جھٹ جواب دیا: ’پانچوں گھوڑسوار دہلی سے آئے ہیں‘۔
پاکستان بھی کوورنا وائرس کے تناظر میں پانچواں سوار بننے کی کوشش کررہا ہے۔ کیا اس جذبہ خیر سگالی کی کوئی قدر و قیمت یا ضرورت ہے یا وبا سے مرتے ہوئے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اب اس سے بہتر کوئی طریقہ باقی نہیں رہا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments