کرونا کا تعلیمی نظام کے ساتھ برتاؤ


تغیر انسانی زندگی میں پیش آنے والا ایک اہم عنصر ہے۔ اور اس میں بقا کی صورت صرف تب ہو سکتی ہے جب حالات کے متوازی راستہ اختیار کر لیا جائے۔ اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے واسطے (میڈیم) کی ضرورت ہوتی ہے، بصورت دیگر ایسے حالات قوموں کی تباہی کا ضامن بن جاتے ہیں۔ جہاں پہلے ہم ترقی یافتہ ممالک سے سو سال کی دوری پر تھے تب فرق شاید صرف نصاب اور ڈگری کی معیار کی حد تک تھا۔ لیکن ابھی تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ کرونا نے ہمیں ہزار سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اساتذہ، طلبا ، نصاب، یہ سب کچھ تو ہے لیکن پڑھانے کا واسطہ (میڈیم) ہی نہیں ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ ممالک جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کے مسئلے کی زد میں نہیں ہیں۔

انگریزوں کے قائم کردہ تعلیمی نظام کا تہتر سالہ کامیاب دورانیہ غیر ضروری طوالت کے ساتھ پورا ہوچکا ہے۔ اس دورانیے میں ہمارا نظام تعلیم تبدیلیوں کا کم ہی شکار ہوا۔ اور ہم اس کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ چند حکومتوں کے دعوؤں سے تو ایسے لگ رہا تھا کہ کہ نظام تعلیم بہتری کی طرف جا رہا ہے۔ امتحانات میں طلبا کے نتائج کافی بہتر آنا شروع ہو گئے تھے۔ ہاں خیر یہ اتنی برہم ہونے والی بات نہیں کہ اس کے لیے زیادہ نمبر دینے کی پالیسی اپنائی گئی تھی۔ لیکن ابھی تو ہم اپنے تعلیمی نظام کے بہتر ہونے پر فخرمند ہی ہوئیں تھے کہ کورونا نے اس پر کاری ضرب لگادی۔ اور ہمیں اس شعبے میں ہر طرح سے اپاہج کر دیا۔ ابھی نہ تو طلبا کے پاس انٹرنیٹ کی فراہمی ہے اور نہ ہی اساتذہ کے پاس پڑھانے کا کوئی منصوبہ۔

ضرورت اس سوچ کی ہے کہ کیا یہ قدرت کا کوئی اشارہ ہے؟ میں نے جب بھی کسی ماہر تعلیم کی گفتگو سنی ہے وہاں مجھے ان کا یہ شکوہ سننے کو ضرور ملا ہے کہ پاکستان کا نظام تعلیم تجرباتی بنیادوں پر نہ ہونے کی وجہ سے معیار کی کمی کا شکار ہے۔ اگر موجودہ حالات نے ہمیں مسئلوں سے دوچار کیا ہے تو دوسری طرف ہمیں ایک شاندار موقع بھی دیا ہے۔ ہمارے پاس آن لائن کلاسز کو کسی طرح جاری رکھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ ہے نہ آگے امتحان وغیرہ کا کوئی منصوبہ۔

اس وقت ہمیں اپنے تعلیمی سرگرمیوں میں وہ ضروری تبدیلیاں کرنی چاہیے جن کا ہم سالوں سے رونا رو رہے ہیں۔ ان تبدیلیوں میں جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی یقینی بنانے کے بعد سرفہرست، زیادہ نمبر لینے اور امتحان کو علم حاصل کرنے کا حتمی سرا نہ رکھا جائے۔ بلکہ طلبا کو زیادہ تجربہ اور تحقیق کے متوالے بنایا جائے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم تک رٹے کا نظام ختم کیا جائے۔ طلبا کو پڑھنے کے نئے طریقے متعارف کروائے جائے۔

ان میں ٹیکسٹ کی کتابوں کے علاوہ حوالہ جاتی کتابوں کو پڑھنے کا رحجان بڑھایا جائے۔ جو ان کی عملی زندگی میں ان کی راہیں ہموار کرے۔ کیونکہ اس سوچ کے ساتھ کہ زندگی، کرونا کے ختم ہونے کے بعد معمول کی طرح رواں دواں ہو جائے گی محض اپنے ساتھ دھوکہ ہے۔ اس کا اثر ہماری زندگی کے ہر شعبے پر سالوں تک رہے گا۔ جس کے لیے ہمارا نظام تعلیم نئی پالیسیوں کے بننے کا منتظر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments