جمہوری قدروں کا زوال


پاکستان جمہوریت کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا لیکن مسلم لیگ جو پاکستان کی بانی جماعت تھی نے سیاسی پختگی کا ثبوت نہ دیا۔ جس کی وجہ سے سیاست کی دال جوتیوں میں بٹنا شروع ہو گئی۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں دس سال تک ملک کا دستور بھی نہ بن سکا۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی سنتالیس والی اسمبلی کے پاس دستور بنانے کا مینڈیٹ بھی نہیں تھا۔ نئی دستور اسمبلی کے انتخابات کرائے جانے کی اصولی بحث نے جنم لیا لیکن اس طرف مسلم لیگ کی اقتدار پسند قیادت نے سخت نا پسند کیا۔

انیس سو اکاون میں خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے گئے، اس وقت کے وزیراعظم نواب لیاقت علی خان نے دھونس اور دھاندلی کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک میں دھندلی کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ کہا جاتا ہے اسی بناء پر مسلم لیگ کے ناراض دھڑوں کی وجہ سے لیاقت علی خان پنڈی میں جلسہ عام قتل کر دیے گئے۔ پھر ایک نہ تھمنے والی طوائف الملوکی نے جنم لیا بڑی مشکل سے چھپن کا دستور بنا لیکن دو سال بعد ہی آرمی چیف جنرل ایوب خان نے ملک مارشل نافذ کر کے جمہوری پودے کو پھلنے پھولنے سے پہلے ہی اسے جڑوں سے اکھاڑ دیا۔

پھر ایک بعد ایک مارشل لاء کے نفاذ کے نتیجے میں فوج طاقتور ہوتی چلی گئی اور سول ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے گئے۔ ملک میں جمہوری ادارے بحال کرنے کے مطالبہ پر اپنے ہی صوبوں پر فوج کشی کی گئی جس کے نتیجے پاکستان ٹوٹ گیا اور پنجاب کی سول و خاکی افسر شاہی نے خوشی کے شادیانے بجائے۔ فوجی حکمرانوں نے اس شکست و ریخت کو نیک شگون قرار دیتے ہوئے کہا کہ اچھا ہوا کہ غداروں سے جان چھوٹ گئی۔ جماعت اسلامی جو الشمس و البدر کے خونی لشکر کے زور پر ملک توڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا کے امیر مولانا مودودی نے فرمان جاری کیا کہ خدا کا شکر ہے کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ملک بن گیا ہے اب حالات کا تقاضا ہے کہ باقی ماندہ مغربی پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔

جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں مذہبی و نسلی منافرت کا ایسا زہر پھیلایا کی سماج پولارائزیشن کے منحوس سرکل میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ صوبائی خودمختاری کے مطالبے اور وفاقیت کے اصولوں کی ٓآواز اٹھانے والوں غدار قرار دے کر ریاستی جبر کا تختہ مشق بنایا گیا۔ مرکزیت پسندی کو عین اسلامی اور حب الوطنی کا زینہ بناکر پیش کیا گیا۔ آج ملک میں بظاہر لنگڑی لولی جمہوریت چل رہی ہے لیکن اردو زبان کی مثل؛ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ؛ والی صورت حال بن چکی ہے۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ڈنڈے اور بلیک میلنگ کے زور پر بلڈوز کرنے کی کوششیں تیز ہو چکی ہیں۔ سیاست کے مے خانوں میں ایک ہنگامہ برپا ہے کہ صوبوں کے پر کاٹے بغیر یہ ملک ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ یہ کوئی نیا کھیل نہیں ہے اس قبل بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے المیوں اور ڈراموں سے بھری پڑی ہے۔ سرائیکی زبان کی کہاوت ہے کہ تیری بیڑی ڈوب جائے اس بندے کو جواب ملتا ہے کہ میری بیڑی تری کب تھی؟

عبدالستار تھہیم
Latest posts by عبدالستار تھہیم (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments