کورونا بجٹ: جمہوریت، تعلیم، صحت اور دفاع میں دلچسپ مقابلہ کون جیتا؟


یہ کہنا مشکل ہے کہ وزیر اعظم نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران میں بھارت کو تکنیکی تعاون کی جو پیشکش کی تھی، اس پر بھارت کے روکھے اور سخت جواب کو درحقیقت افسوسناک کہا جائے، منہ توڑ سمجھا جائے یا شرمناک قرار دیا جائے۔ اسلام آباد میں وزارت خارجہ نے بھارتی جواب کو ’مسترد‘ کرتے ہوئے اسے عمران خان کے جذبہ خیر سگالی سے انکار قرار دیا۔ لیکن وزیر اعظم خود بنفس نفیس قومی اسمبلی میں وزیر صنعت و قومی پیداوار حماد اظہر کی بجٹ تقریر سننے پہنچ گئے ۔

اس انہونی کی وجہ تسمیہ شاید یہ تھی کہ بجٹ تقریر سے پہلے تحریک انصاف اور اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس بات پر متفق ہوگئی تھیں کہ بجٹ اجلاس کے دوران کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کیا جائے گا اور اپوزیشن بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ اپوزیشن نے تعاون اور فراخدلی کی انتہا کرتے ہوئے حکومت کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کرلیا کہ 30 جون تک جاری رہنے والے بجٹ سیشن کے دوران کورم کی کمی کا شکوہ بھی نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی نشاندہی سے گریز کرتے ہوئے کارروائی جاری رکھی جائے گی۔ اپوزیشن کو رام کرنے کے بعد وزیر اعظم کا ایوان میں تشریف لانا حیران کن بات نہیں ہے کیوں کہ انہیں اصل میں یہی خوف یا شکایت رہتی ہے کہ اپوزیشن کے منہ زور ارکان اپنی بدکلامی سے ملک کے وزیر اعظم کی ’توہین‘ کریں گے۔

اپوزیشن کا زہر نکالنے کے لئے اگرچہ عمران خان بھی مراد سعید جیسے ہونہاروں کو ’دودھ‘ پلاتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کی سخت کلامی ملک کے نازک مزاج وزیر اعظم کی طبع نازک پر گراں گزرتی ہے۔ اس لئے وہ ’بدعنوان‘ اپوزیشن لیڈروں کے منہ لگنے کی بجائے قومی اسمبلی میں تشریف لانے سے ہی گریز کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ اس ایوان کے قائد ہیں اور پارلیمانی روایت کے مطابق انہیں ہر موقع پر ایوان کو اعتماد میں لینے کے لئے موجود رہنا چاہئے۔

وزیر اعظم کی حساس طبیعت کا ہی شاخسانہ ہے کہ انہوں نے جب بعض امریکی یونیورسٹیوں کی یہ تحقیق ملاحظہ کی کہ کورونا سے پیدا ہونے والے بحران اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھارت کی 34 فیصد آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ شاید لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کی پابندیوں کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اس دکھ بھری رپورٹ کو پڑھ کر ہمارے نیک دل وزیر اعظم یہ بھول گئے کہ یہ رپورٹ ایک ایسے دشمن ملک کے بارے میں ہے جس کا وزیر اعظم نازی ذہنیت کا سفاک ہے اور جو نہ صرف پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے دانت تیز کئے بیٹھا ہے بلکہ اس نے مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ شہریوں کو بندی بنایا ہؤا ہے۔ عمران خان کی اس رحم دلانہ اور انسان دوستی کی بنیاد پر کی گئی پیش کش کا جواب بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے نہایت روکھے انداز میں دیتے ہوئے کہا کہ ’ ہمارا ریلیف پیکج پاکستان کی کل قومی پیداوار سے بھی بڑا ہے۔ پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا قرض مجموعی قومی پیداوار کا 90 فیصد ہے‘۔ بھارتی ترجمان نے ’غیر مہذب ‘ انداز اپناتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو نئے مشیر رکھنے اور بہتر معلومات حاصل کرنے کا مشورہ بھی دیا۔

تاہم یہ آج کے بجٹ اجلاس کے حوالے سے ہونے والے مباحث کا محض ایک پہلو ہے جس میں ناشکر گزار اور مغرور ہمسایہ ملک نے پاکستانی وزیر اعظم کی نیک دلی کو اپنی معاشی قوت کے گھمنڈ میں مسترد کرکے پاکستان کے ساتھ مواصلت و مفاہمت کا ایک نادر موقع ضائع کردیا ۔ شاید عمران خان نے احساس پروگرام کی کامیابی کے گرُ بھارت کو سکھانے کی پیش کش بھی اسی لئے کی تھی کہ اس طرح کٹھور مودی کا دل نرم ہوگا اور دونوں ملک جنگ کی بجائے ایک دوسرے کے اچھے ہمسائے بننے کے سفر کا آغاز کرسکیں گے۔ بھارت کے جواب سے البتہ ایک بار پھر واضح ہوگیا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت ’صلح‘ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ۔

عمران خان کو اگر نئی دہلی سے مایوس کن خبر ملی تو قومی اسمبلی میں ان کے ساتھیوں نے سیاسی چھکا مار کر انہیں یہ خوش خبری سنائی کہ اپوزیشن کے زہریلے دانت نکال دیے گئے ہیں۔ اب اپوزیشن لیڈر غرانے اور نعرے لگانے تک محدود رہیں گے ، بجٹ کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔ اس طرح پاکستانی اپوزیشن پارٹیوں نے شاید پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی پارلیمانی جمہوریت میں یہ تاریخ رقم کی ہے کہ وہ ایک ایسی بجٹ دستاویز کو منظور کرنے پر متفق ہوگئی ہیں جسے انہوں نے معاہدہ پر دستخط کرتے ہوئے دیکھا بھی نہیں تھا۔ دلچسپ بات ہے کہ اسپیکر اسد قیصر کے اشارے پر پیپلزپارٹی کے ایم این اے سید نوید قمر نے وفاقی وزیر برائے صنعت و قومی پیداوار حماد اظہر کی بجٹ تقریر سے پہلے اس معاہدہ کی تفصیلات اجلاس میں پڑھ کر سنائیں جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طے ہؤا تھا۔

اس معاہدہ کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس روزانہ تین گھنٹے کے لئے ہوگا اور ایک وقت میں صرف 86 ارکان کو اجلاس میں شرکت کی اجازت ہوگی۔ ان میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کے 46 اور اپوزیشن پارٹیوں کے 40 ارکان ہوں گے۔ اپوزیشن بجٹ میں کٹوتی یا ترمیم کی تجاویز مسترد ہونے کے باوجود بجٹ کی منظور ی میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ اپوزیشن نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ اسمبلی کے بجٹ سیشن کے دوران کورم کی نشاندہی کرکے اجلاس میں تعطل پیدا نہیں کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ چونکہ ایوان کی دو بڑی اپوزیشن پارٹیوں اور حکمران جماعت کے درمیان ہؤا تھا ، اس لئے جمیعت اسلام (ف) کے ارکان کو اس پر سخت ملال تھا۔ ان کے غصہ کی اصل وجہ البتہ یہ تھی کہ اسپیکر نے اس معاہدہ کی روشنی میں ایوان میں صرف 86 نشستوں کی اجازت دی ۔ اس طرح جمیعت کے ارکان معاہدہ کا حصہ بنے بغیر ہی ایوان میں اپنی ’کرسیوں‘ سے محروم ہوگئے۔ انہوں نے اسپیکر کی نشست کے سامنے علامتی دھرنا دے کر احتجاج ریکارڈ کروایا اور پھر آرام سے گھروں کو روانہ ہوگئے۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ گزشتہ روز اکنامک سروے پیش کرتے ہوئے وہ باتیں بتا چکے تھے جن کا باقاعدہ اعلان آج بجٹ تقریر میں کیا گیا۔ کہ یہ بجٹ کورونا بجٹ ہوگا ، اس سے کوئی خاص توقع باندھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے محاصل میں اضافہ نہ کرنے کا اشارہ بھی دے دیاتھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ اس بجٹ میں جو نقائص دکھائی دیں گے، وہ یا تو سابقہ حکومتوں کی ذمہ داری ہیں یا کورونا نے حکومت کی کامیاب مالی پالیسیوں کو ناکام بنادیا ہے۔ اس لئے قوم حکومت یا اس کے سربراہ عمران خان کو اس کا قصور وار سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔ آج باقاعدہ بجٹ پیش کرتے ہوئے حماد اظہر نے اسی پیغام کی تفصیلات عام کی ہیں کہ عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت میں کس طرح حکومت نے بدعنوان حکمرانوں کی چھوڑی ہوئی بدحال معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا تھا لیکن یہ بد بخت کورونا بیچ میں آگیا۔ مقام شکر ہے کہ بات صرف اپوزیشن پر دشنام طرازی تک محدود رہی اور سرکاری نمائیندے نے اپنے لیڈر کی وفاداری کے جوش میں کورونا کو تحریک انصاف کی حکومت اور پاکستانی معیشت کے خلاف اپوزیشن یا دنیا کی سازش نہیں قرار دیا۔

عمران خان یوں بھی سازشیں ناکام بنانے کے ماہر ہیں۔ اسی لئے وہ وزارت عظمی کے منصب عالیہ پر متمکن ہیں اور ہر دو چار ماہ بعد سامنے آنے والی ان پیش گوئیوں کوناکام بنا رہے ہیں کہ فوج اب عمران خان سے مایوس ہوچکی ہے اور یہ حکومت چند دن کی مہمان ہے۔ امریکی میڈیا بلوم برگ نے اگرچہ تین روز پہلے اپنی ایک رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ فوج کے درجن بھر جنرل اہم حکومتی شعبوں کی نگرانی پر مامور ہیں اور سی پیک کے تحت سرمایہ کاری کے منصوبوں کی نگرانی بھی ایک سابق فوجی جنرل کے ہاتھ میں ہے جو اتفاق سے اس وقت اطلاعات کے معاون خصوصی بھی ہیں۔ بلوم برگ کا کہنا ہے کہ اس طرح فوج نے عملی طور سے عمران حکومت کے اختیارات پر قبضہ کرکے ملک کی سول حکومت کو لاچار بنا دیا ہے۔ اس میڈیا کے مطابق یہ طریقہ ملک میں جمہوریت کے لئے سخت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

حکومت نے البتہ اپنا کورونا بجٹ پیش کرتے ہوئے یہ اہتمام کیاہے کہ فوج کو اس کی مالی مہارت سے کوئی شکایت نہ ہو۔ ایک ایسے وقت میں جب قومی پیداوار میں تین ہزار ارب روپے کی کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے، حکومتی محاصل کا ہدف گزشتہ برس کے مقابلے میں 600 ارب روپے کم مقرر ہے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، ملک کے دفاعی بجٹ میں لگ بھگ 12 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ گزشتہ مالی سال میں دفاع کے لئے مختص کئے گئے فنڈز سے 85 ارب روپے زیادہ ہے۔ اس طرح دفاع کو غریب پاکستان کا تقریباً خالی خزانہ 1289 ارب روپے فراہم کرے گا۔ دفاعی اخراجات میں اضافہ شعبہ تعلیم کو ملنے والے 83 ارب روپے سے دو ارب روپے زیادہ ہے۔ بجٹ میں کورونا وبا کی وجہ سے شعبہ صحت پر خاص توجہ دی گئی ہے اور اس کا بجٹ 11 ارب سے بڑھا کر 25 ارب روپے کردیا گیا ہے۔ تاہم اس میں یہ نکتہ زیر غور رہنا چاہئے کہ یہ رقم دفاعی بجٹ میں ہونے والے حالیہ اضافہ کے ایک چوتھائی سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ شعبہ صحت کو اضافی فنڈز کوروناوائرس کی وجہ سے دیے گئے ہیں ۔ یہ اضافی رقم زیادہ تر فوج کی نگرانی میں چلنے والے اداروں کے توسط سے استعمال کی جائے گی۔

حکومت نے شاید اس طرح ’بدعنوانی ‘ کی روک تھام کا اہتمام کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کرپشن اور کرپٹ کو برداشت نہیں کرتے۔ اسی لئے وہ کسی پیشگی معاہدہ کے بغیر قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی نہیں آتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments