ہمیں معاف ہی رکھیں بی بی


تمام الہامی مذاہب کی کتابوں میں یہ ذکر ہے، کہ حوا نے آدم کو ورغلایا۔ کسی ایک جگہ یہ ذکر نہیں، کہ ورغلانے والا آدم تھا۔ اسی طرح ہندوؤں کی مذہبی کہانیاں عورت کی چال بازیوں سے منسوب ہیں۔ یونانی اساطیر کی دیویاں ان کے کردارکی گواہ ہیں۔ ان باتوں کے جواب میں بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے، کہ یہ تمام کتابیں مردوں پہ اتری ہیں، یا تحریف کی گئی ہے۔ اس لیے ہر مقام پر عورت کو سازشی دکھایا گیا ہے۔ یہ کہنے سے بات نہیں بنے گی۔۔

ہمارے جیسے سماج میں عورت اپنی مظلومیت کا بڑا شور مچاتی ہے۔ عموما جنسی استحصال کا رونا روتی ہے۔ ہراساں کیے جانے کی دہائی دیتی ہے، لیکن ہم ایسے مردوں کو بھی جانتے ہیں، جنھیں ان کی کم سنی میں ان سے عمر میں بڑی عورتوں نے جنس کی لذت سے آشنا کرایا۔ ایسے مرد یہ کہتے نہیں پاے جاتے کہ ان کا جنسی استحصال ہوا ہے۔ سماج کی تربیت کی یہ کجی عورت میں رہ گئی ہے، کہ مرد اور عورت کے تعلق میں عزت اسی کی جاتی ہے۔ گویا اسی شئے کا نام \’عزت\’ ہے۔

عورت کو یہ گلہ ہے، کہ وہ جہاں سے گزرتی ہے، اسے گھورا جاتا ہے۔ یہ مرد عورت کا مسئلہ نہیں، سماج کی گھٹن ہے۔ عورت ہی کو نہیں چکنی چمڑی والے لڑکے کو بھی گھورا جاتا ہے۔ لہاذا یہ کہنا کہ عورت کی محرومی کا ذمہ دار مرد ہے، تو یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ ہراساں کرنے کی بھی سنیے، بھرے بازار میں کھڑی عورت کہ دے کہ اسے فلاں مرد نے چھوا ہے، ملزم کی گواہی کوئی نہیں لے گا، سب عورت کے حمایتی بن کر مرد کو سبق سکھانے لگ جائیں گے۔ مرد، مرد کا حریف ہے، اور عورت، عورت کی۔ دیکھا جاے تو عورت کو پستی کی طرف لے جانے والی اسی کی ہم جنس ہے۔ مرد نہیں۔

مستثنیات کو چھوڑ کر، مرد عورت کو پسند کرتا ہے، اور عورت مرد کی حیثیت کو۔ تواریخ گواہ ہے، کہ بادشاہوں نے عورت کی چاہ میں تخت تک چھوڑ دیئے۔ کہانی من گھڑت سہی، لیکن اس میں بھی قلوپطرہ تخت بچانے کے لیے مکاری دکھاتی ہے۔ ارسطو سے لے کر، نطشے تک ہر ایک، عورت کو مکار کہتا آیا ہے۔ آدم سے لے کر، کنگ ایڈورڈ ہشتم تک، مرد تخت قربان کرتا آیا، جنت بدر ہوتا آیا ہے۔

مفکرین کا کہنا ہے، کہ مکر غلاموں کا وصف ہے۔ کم زور سامنے سے وار نہیں کر سکتا تو مکاری کا سہارا لیتا ہے۔ چوں کہ سماجی طور پر عورت کم زور ہے، اس لیے مکر کرتی ہے۔ یاد رہے جہاں مرد کم زور ہوتا ہے، وہاں وہ مکاری سے کام نکالتا ہے۔ سماج کے پسے ہوے یا محکوم طبقات اسی قسم کی ذلتوں میں لتھڑے ہوتے ہیں۔ عورت غلامی سے آزادی چاہتی ہے، تو مرد کی حیثیت کو نہیں، اس کے کردار کو چنے۔ مرد عورت سے رپیا پیسا دولت کا متمنی نہیں‌ ہوتا، یہ عورت ہی ہے۔ مرد سے زیور کا مطالبہ ہو تو یاد رکھیں، زیور غلاموں کی زینت ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments