ٹیکس فری وفاقی بجٹ میں ریلیف کے لیے سراپا احتجاج عوام


2011 کا سال تھا بجٹ کی تیاری بڑی زور شور سے جاری تھی، معاشی مسائل بھی بہت تھے، دہشتگردوں کے خلاف سوات آپریشن جاری تھا ملک میں امن وامان کی صورتحال خاصی تشویشناک تھی، بجٹ کی تیاری اس وقت بھی آئی ایم ایف سے امپورٹڈ یہی وزیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ صاحب کر رہے تھے فرق صرف اتنا تھا کہ وہ اس وقت پیپلز پارٹی کے منتخب سینیٹر کی حیثیت سے وزیر خزانہ بنے تھے مگر نوکری آئی ایم ایف کی ہی کر رہے تھے لہذا وہ بجٹ میں عام آدمی کو زیادہ مراعات دینے کے حق میں نہیں تھے، مزید ٹیکسز کی صورت میں ان پہ اضافی بوجھ بھی ڈالنا چاہ رہے تھے۔

اس وقت وزیراعظم یوسف رضا گیلانی صاحب اور صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب کی یہ ہدایات تھیں کہ عوام خصوصاً سرکاری ملازمین، دیہاڑی دار، صنعتوں اور غیر حکومتی اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کی مراعات اور تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ ہونا چاہیے، جبکہ حفیظ شیخ صاحب اس کے خلاف تھے۔ اسی دوران وزراء کے درمیان ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنز کو لے کر اختلافات کھڑے ہو گئے تو وفاقی وزیر سید خورشید شاہ دو اور وفاقی وزراء کو لے کر زرداری صاحب کے پاس شکایت کرنے چلے گئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پچاس فیصد اور پینشنرز کی پینشن میں بیس فیصد اضافہ کر دیا گیا۔

آج نو سال بعد غریبوں مزدوروں کا درد رکھنے والے وزیراعظم عمران خان کی حکومت اور وہی امپورٹڈ وزیر خزانہ، وہی آئی ایم ایف کی ترجیحات کہ عوام و سرکاری ملازمین و پینشنرز کو کوئی ریلیف نہیں دینا اور اس بار غریبوں کا درد رکھنے والے وزیراعظم کی ایک نہ چلی اور سرکاری ملازمین، پینشنرز، مزدور تنخواہوں اور اجرت میں اضافے کے اعلان سے محروم رہ گئے۔

وفاقی وزیر حماد اظہر نے تاریخ کے ریکارڈ 3437 ارب خسارے کے ساتھ 7365 کا وفاقی بجٹ پیش کیا جس میں بظاہر تو کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، مگر تاریخ کی بدترین مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کے لیے کوئی خاص ریلیف بھی نہیں دیا گیا۔ حکومت نے اس بجٹ میں نیا ٹیکس نہ لگانے کا چونا لگا کر اس طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جس کا رونا خان صاحب اپنی ہر تقریر میں روتے ہیں، جن کی تکالیف انہیں ملک میں وبا سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن لگانے سے بھی روکے ہوئے ہے۔ بجٹ میں اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں کمی کا کوئی ذکر نہیں تھا، ہم اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھے بغیر صرف اس بات پہ فوکس رکھتے ہیں کہ اس بجٹ میں حکومت نے پاکستان کے غریب پسے ہوئے طبقات کو کیا دیا۔

بجٹ بننے سے پہلے اخبارات میں خبریں گردش کرتی رہیں کہ آئی ایم ایف حکومت پہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ حکومت دفاعی بجٹ میں بھی کمی کرے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنز میں اضافہ کرنے سے بھی باز رہے، جبکہ گیس بجلی اور دیگر شعبوں میں ٹیکسز میں اضافہ کرکے اپنا ٹیکس ریونیو بڑھائے۔ خان صاحب کی غریب مزدور دوست حکومت نے دفاعی بجٹ کے معاملے پہ تو آئی ایم ایف کو اپنے منشی کے ذریعے منا لیا مگر ریٹائرڈ اور حاضر سرکاری ملازمین، مزدوروں کے لیے مراعات کے معاملے پہ وہ آئی ایم ایف کو نہیں راضی کر سکے جس کا نتیجا یہ نکلا کہ تاریخ میں پہلی بار سرکاری ملازمین، پنشنرز اور مزدوروں کی تنخواہوں پنشنز اور کم سے کم اجرت کا اعلان نہیں کیا جا سکا۔

وزیراعظم عمران خان صاحب کی حکومت بائیس ماہ میں جی ڈی پی گروتھ 5.8 سے منفی 0.38 فیصد پہ لے آئی

عمران خان صاحب کی حکومت کو ملکی قرضے 24953 ارب پہ ملے وہ مارچ 2020 تک 35207 تک لے آئی

عمران خان صاحب کو اقتدار کے وقت مہنگائی شرح 6 فیصد کے قریب ملی مگر وہ صرف بائیس ماہ میں ملکی تاریخ کی سب بلند سطح 14 فیصد پہ لے آئی

عمران خان صاحب کی حکومت گردشی قرضہ 2000 ارب تک لے کر آئی جبکہ ن لیگ کی طرف سے اسے 1200 ارب گردشی قرضہ ورثے میں ملا۔

عمران خان صاحب کی حکومت میں دوسرے ہی سال بجٹ خسارہ 3437 ارب جبکہ پیپلز پارٹی کے آخری بجٹ 2012 میں خسارہ 1187 ارب، مسلم لیگ ن کے آخری بجٹ 2013 خسارہ 1892 ارب۔

خان صاحب فرماتے ہیں کہ انہوں نے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا تو پھر آخر وہ کون سی جادو کی چھڑی ہے جس کی مدد سے ٹیکس ریونیو کلیکشن میں اضافہ کیا جائے گا، وفاقی وزیر حماد اظہر اور آئی ایم ایف سے مستعار لیے گئے مشیر خزانہ ملکی معیشت کی بدحالی کا ذمے دار کورونا کو قرار دے رہے ہیں جبکہ کورونا وائرس پاکستان میں فروری میں آیا اور خان صاحب اور ان کی مسلط کردہ ٹیم پاکستان کی معیشت کو پہلے ہی آئیسولیشن میں ڈال چکی تھی۔ ملکی تاریخ کا سب سے بلند افراط زر، مہنگائی کی شرح، ڈالر ریٹ، قرضوں کا حجم، اوپر سے غیر سنجیدہ، غیر لچکدار غیر سیاسی رویوں نے رہی سہی کثر پوری کردی۔

وزیراعظم عمران خان کی حکومت اپنے پہلے بجٹ میں تجویز کیے گئے اہداف بھی حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی تھی اور آج جب کورونا سے پوری دنیا کی معیشت منفی زون میں داخل ہوچکی ہے تو تحریک انصاف کی حکومت اپنی عوام کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھا کر اپنی ناکامیاں نا اہلیاں اور نالائقیاں چھپانے کے لیے کورونا وائرس کی آڑ لینا چاہتی ہے جبکہ ان کی اپنی حکومت کے اقتصادی سروے برائے 2019۔ 20 نے ان کی اہلیت قابلیت اور کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔

پاکستان کی عوام کو اعداد و شمار سے کوئی غرض نہیں انہیں اگر غرض ہے تو یہ کہ پیٹرول کی قیمت اگر کم ہوئی ہے تو پیٹرول کم یاب کیوں ہے، چینی اور آٹا آج بھی مہنگے داموں دستیاب کیوں ہے، کیوں پیٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات عوام کو نہیں مل رہے، کیوں بجلی گیس کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، کیوں سبزیوں اور دیگر اشیاء صرف کی قیمتیں آسمان کی بلندی کو چھو رہی ہیں۔ سونے پہ سہاگا بجٹ میں سرکاری ملازمین ریٹائرڈ پنشنرز کی پیشن سمیت مزدور کی کم سے کم اجرت میں ایک پیسے کا بھی اضافہ نہ کرکے تحریک انصاف کی حکومت نے اس طبقے کا معاشی قتل کیا ہے جس کے لیے خان صاحب پچھلے تین ماہ سے لمبے لمبے بھاشن دے رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کیا تو خط غربت کی لکیر پہ زندگی گزارنے والے طبقات خط غربت کی لکیر سے بھی نیچے چلے جائیں گے۔

آج سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے طول و عرض میں عام پاکستانی نیازی سرکاری کی عوام دشمن پالیسیوں اور اقدامات، قیادت کے فقدان، بدترین طرز حکمرانی اور غیر سنجیدہ سیاسی رویوں کے باعث سراپا احتجاج ہے اور اگر یہ احتجاج کہیں جارج فلائیڈ کے وحشیانہ قتل کے خلاف ہونے والے احتجاج کی شکل اختیار کر گیا تو پہلے سے ہی مشکلات میں گھری نیازی سرکار شاید اس احتجاج کا بوجھ برداشت نہیں کر پائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments