ایک ناقابل فراموش احتجاج


ٹھیک سے یاد نہیں، شاید 2009 کی شدید گرمیوں کی بات ہے، جب بجلی کا بحران شدت اختیار کر گیا، ہر طرف بس احتجاج ہوتے تھے، گرمی کے مارے غریب سڑکوں پر آکر اپنا جمہوری حق استعمال کرتے اور مطالبہ کرتے کہ ان کے پنکھے چالو کیے جائیں۔ سڑکوں چوراہوں پر ٹائر، موٹر سائیکلیں سب ہی نذر آتش کیا جاتا اور فضا میں مزید گرمی ہوجاتی۔

حکومت تو آصف زرداری کی تھی مگر دور سید بادشاہ کا تھا۔ لاہوریوں کو شکوہ ہوتا کہ لاہور کے ساتھ نا انصافی زیادہ ہو رہی ہے۔ اس روز جب شاہدرہ کے قریب پرتشدد احتجاج ہو رہا تھا، میں، میری والدہ، میرا بیٹا اور کچھ قریبی عزیز منڈی بہاوالدین سے واپس لوٹ رہے تھے۔ شام کا اندھیرا اتر رہا تھا اور فضا میں دھویں کے بادل بسیرا کیے ہوئے تھے۔ ٹریفک بند کر دی گئی کیونکہ احتجاجیوں نے راستہ بند کر رکھا تھا۔ میں احتجاجیوں کو قطعی برا ثابت نہیں کر رہی کیونکہ غریب کرے بھی تو اور کیا کرے۔ ان کا پورا پورا حق تھا۔ ہمیں ٹریفک پولیس کے اہلکار نے آکر کہا کہ آگے جانا مشکل ہے، آپ لوگ گاڑی سے اتریں اور چل کر ہی احتجاج کو پار کریں ورنہ صبح یہیں پر ہو جائے گی۔ سورج تو غروب ہو چکا تھا مگر اپنا رنگ روپ جیسے چھوڑ گیا ہو، شدید گرمی اور حبس برقرار تھا، ہارن بجاتی، شور مچاتی گاڑیاں، جلی ہوئی موٹر سائکلوں کی چتا سے اٹھتا دھواں الگ تھا تو احتجاجیوں کا دماغ میں سوراخ کرتا شور الگ، وہاں رکنا کوئی سہہ ہی نہیں سکتا تھا تو ہم سب گاڑی سے اتر دیے۔ دھکے، گالیاں اور ٹھوکریں سب تواتر کے ساتھ کھا رہے تھے۔ فکر تھی تو اس بات کی کہ کوئی کسی سے جدا نہ ہو جائے یا احتجاج کے ہلے میں اوجھل۔ میں نے شام کے نیل گو اندھیرے میں بس یہی چاہا کہ میری والدہ اور بیٹا میرے ساتھ رہیں اور یہی فکر میری والدہ اور بیٹے کو رہی۔

لوگوں کے ہجوم سے جلدی جلدی خود غرضی سے راستے بناتی، پسینے سے شرابور، مشکلوں سے سانس لیتی اور لوگوں کے پسینوں سے ٹکراتی آگے کو جا رہی تھی جب مجھے احساس ہوا کہ میرے ہاتھ میں میرے بیٹے کا ہاتھ ہے نہ مجھے اپنی ماں کہیں نظر آ رہی تھیں۔ اندھیرا بھی بڑھ چکا تھا، احتجاجی بھی مشتعل ہو چکے تھے۔ یوں سمجھئے کہ تل دھرنے کی جگہ تک نہ تھی۔ بے یقینی اور ترسیدہ حالات میں میں نے کھو جانے والے اپنوں کو پکارنا شروع کیا۔

انسانوں کے اس ہوش ربا جنگل اتنا شور تھا کہ دل کے ہر گوشے کو اس بات کا یقیں تھا کہ میں بے فائدہ ہی آواز دے رہی ہوں، کسی کو میری آواز کہاں پہنچنی ہے۔ کبھی کوئی دھکا دے کر اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرتا تو کبھی کسی کے پسینے سے ڈوبتی قمیض سے منہ بھیگ جاتا۔ جب قانون لاچار ہو اور انصاف دینے والے مفاد کی جھاگ میں ہی غرق ہوں تو انسان انساں ہی نہیں رہتا، ایسے جیسے جنگل میں سب درختوں پر چھلانگیں لگا رہے ہوں، کسی کی دم کہیں اٹکتی ہو تو کسی کا ہاتھ کسی ڈالی سے پھسلتا ہو۔ کتنا ضروری ہوتا ہے قانون اور نظم و ضبط بھی انسان کے لئے اس کا اندازہ اس اندھیرے میں ہو رہا تھا۔

میں اپنے بیٹے کو پکار رہی تھی اور میری نظریں میری ماں کو تلاش رہی تھیں جب ہی کسی نے ایسے زور سے دھکیلا مجھے کہ ایک گہرے گڑھے میں گر گئی۔ وہ گرنا جو دیکھنے میں چند لمحات پر محیط تھا میرے شعور میں بڑا وسیع تھا۔ ان چند ڈگمگاتے لمحوں میں میں سوچ چکی تھی کہ اب تو کسی کو میرا گماں تک نہیں ہوگا کہ میں کہاں گئی۔ اس قدر شور کا طوفاں مچا ہوا تھا کہ کسی صورت میری چیخ و پکار کسی کے کان میں پڑ ہی نہیں سکتی تھی۔

میں نے امید اور ہمت ساتھ ہار دی، اندھیرے کا سایہ مکمل چھا گیا تھا کسی کو کچھ دکھنا بھی نہیں تھا۔ گرتے گرتے میری ہمت جواب دے بیٹھی تھی جب میں نے دیکھا کہ اس گڑھے میں میری کھوئی ہوئی ماں مجھ سے بہت پہلے کی گر چکی تھی۔ میری ماں نے مجھے دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا، شاید یہی سب میری ماں بھی سوچ چکی تھی جو میرے شعور نے فیصلہ سنایا تھا کہ اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔

گرتے ہوئے جو چیخ میں نے لگائی تھی، احتجاج میں تحلیل میرے بیٹے نے بہت دور سے سن لی تھی۔ اس چیخ کی ہوا میں سرایت کی پیمائش کرتا وہ بھی اسی گہرے گڑھے کے اوپر آن کھڑا ہوگیا جہاں خدا نے مجھے میری گری ہوئی ماں کو نکالنے کے لئے گرایا تھا۔

خدا ایسے ہی ہمیں اندھیروں سے باہر دھیکلتا ہے اور ہم سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دھکیل ہی کیوں رہا ہے، عزت سے چلا کیوں نہیں رہا؟ اکثر دھکیلے جانا، گرایا جانا اور چیخنا چلانا کسی بڑے مقصد کی خاطر ناگزیر ہو جایا کرتا ہے اور اس کا ادراک مجھے اس شب ہوا جو بھلائے نہیں بھولتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments