نورانی نور ہر بلا دور


کراچی میں اب دیواروں پر لکھے نعرے بھی قابل اعتبار نہیں رہے۔ نہ جانے کون راتوں رات آ کر ایسی باتیں لکھ جاتا ہے تو ہمارے آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتی ہیں۔ پھر ایک نئی حیرت کے ساتھ ہم ٹیلی وژن کے بہت سارے چینلز پر وہی ایک خبر گھومتی ہوئی دیکھتے ہیں کہ کراچی میں وال چاکنگ۔ جو لکھ دیا گیا ہے اسے نوشتۂ دیوار سمجھیے۔ لیکن کراچی والوں کے دل کا حال جاننا ہو تو بس، رکشا اور ٹرک پر لکھی ہوئی عبارتیں بہت مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ ہر دوسری یا تیسری بس کے پیچھے لکھا ہوا نظر آئے گا:

نورانی نور ہر بلا دور
یا پھر یوں لکھا ہوگا:
جیے شاہ جبل میں شاہ

اس کا مطلب کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ کراچی کا عام آدمی اور عام آدمی کا کراچی ان ناموں کو جانتا ہے۔ کراچی سے کئی میل دور اور ایک طویل، دشوار سفر کے آخر میں شاہ نورانی کی درگاہ جو دور ہو کر بھی کراچی کے عام آدمی کو بہت بڑا سہارا معلوم ہوتے ہیں۔ کون سا مسئلہ ہے جس کے لیے لوگ ان کے پاس نہیں جاتے؟ اخبارات میں ان دنوں سندھ کے نئے گورنر کے حوالے سے چہ می گوئیاں سنائی دے رہی ہیں کہ پچھلے صاحب نے کیوں چھوڑا، نئے صاحب مناسب ہیں کہ نہیں۔ ہو گا، ہم کیا کریں۔ ہمارے لیے نورانی نور ہر بلا دور ایوان ہائے حکومت میں کوئی آئے یا کوئی جائے، کراچی کے عام آدمی کے لیے دو سہارے بہت ہیں۔ سب سے پہلے کلفٹن میں عبداللہ شاہ غازیؒ۔ ان کے ساتھ دوسرا نام، شاہ نورانی۔ عبداللہ شاہ غازیؒ کا نام میں نے پہلے اس لیے لیا کہ درگاہ پر خودکش حملے کے حوالے سے اب وہ سینئر ہوگئے ہیں۔

عبداللہ شاہ غازیؒ کا مزار کلفٹن میں سمندر کے کنارے اور پرانے مندر کے ساتھ میرے بچپن میں راتوں کو دیر تک لوگوں سے بھرا رہتا تھا اور روشنی سے جگمگاتا رہتا تھا۔ پرسوں رات میں نے دور سے دیکھا تو وہ مجھے اندھیرے میں ڈوبا ہوا نظر آیا۔ اس کے عین سامنے ایک دیوہیکل عمارت زمین سے جل کھمبی کی طرح ابھر آئی ہے اور ایک فحش، سوقیانہ اشارے کی طرح آسمان کی طرف اٹھتی جا رہی ہے۔ اونچائی پر تعمیر ہونے کے باوجود مزار اس کے سامنے دب کر رہ گیا ہے۔ اور پھر اس مزار کو یہ جدید وضع قطع کس نے عطا کر دی؟ اب یہ گلوبلائزیشن کا مظہر معلوم ہوتا ہے، کراچی کے بے آسرا، بھوکے، بے گھر لوگوں کی پناہ گاہ نہیں جن کو یہاں پیٹ بھر کر کھانا اور سونے کے لیے تھوڑی سی جگہ مل جاتی تھی۔

مجھے ساحر لدھیانوی کی وہ نظم اب کلفٹن کی شاہراہ پر یاد آتی ہے:

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبّت کا اڑایا ہے مذاق۔۔۔

فلائی اوور کے ساتھ سردی سے سکڑے ہوئے افراد تلاشی دے کر مزار میں جانے کے لیے قطار بنا رہے ہیں۔ یہ قطار آگے بڑھ رہی ہے، اسی طرح جیسے کراچی میں امن کی بحالی کے مستقل اعلانات۔ یعنی آپ اس کو امن کہہ رہے ہیں۔

شہر سے باہر جنگل صحرا کے راستے عبور کرنے کے بعد اور پہاڑوں سے گزرنے کے بعد مُرادوں کا میٹھا پھل، شاہ نورانی جو آج خون سے نہلایا ہوا ہے۔ آنسوئوں سے دُھلا ہوا ہے۔ میں فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس خودکش دھماکے کی تفصیلات زیادہ ہول ناک ہیں یا ہمارے قومی رہ نمائوں کے بیانات۔ اس وقت تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بیانات پہلے سے تیار رکھے رہتے ہیں۔ نام پتہ بدلا اور فوراً بیان جاری۔۔۔ وہی مذمت کا لفظ جس کو سُن سُن کر کان پک گئے۔ دھماکوں کی مذمت، ہلاکتوں کی مذمت۔ میں یہ بیان سننا چاہتا ہوں کہ کسی رہ نما نے وہاں پر سڑک نہ ہونے کی مذمت کی۔ میں یہ بیان پڑھنا چاہتا ہوں کہ کسی رہ نما نے مناسب اسپتال نہ ہونے کی مذمت کی۔ کسی رہ نما نے اس بات پر افسوس کیوں نہیں کیا کہ ہزاروں، لاکھوں افراد وہاں جاتے ہیں اور وہاں پر بنیادی سہولیات کا ایسا شدید فقدان ہے۔

ہمارے بہادر اور دانش مند وزیرداخلہ نے ایسی جگہ جانے کا غلطی سے بھی ارادہ نہیں کیا۔ سابق وزیرداخلہ نے ارشاد فرمایا کہ ایک پڑوسی ملک ہماری اقتصادی ترقی سے جل گیا اور بلوچستان کو سوفٹ ٹارگٹ سمجھ لیا۔ سابق وزیر صاحب کراچی یونیورسٹی سے اعزازی ڈگری یافتہ ہیں، اس لیے جو کچھ کہتے ہیں سوچ سمجھ کر کہتے ہوں گے۔ ایسے موقع پر مجھے پنجابی کا فقرہ یاد آتا ہے__ لگتا تو نہیں ہے پر شاید۔۔۔۔

ٹیلی ویژن پر یہ منظر دکھایا جارہا ہے کہ رینجرز کے چاق و چوبند تازہ دم دستے شاہ نورانی پہنچا دیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب وہ وہاں پہنچ کر فاتحہ پڑھنے کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں۔

کراچی کے دو علاقوں میں نماز جنازہ ادا کیے جانے کی تفصیل میرے اسکرین پر آرہی ہے۔

چار سال قبل شادی کرنے والے میاں بیوی اولاد کی دعا کرنے وہاں گئے تھے۔ اٹھارہ سال کا نوجوان جو عین اسی لمحے اپنے رشتے داروں کے لیے پانی کی بوتل لینے گیا تھا۔ لیاقت آباد سے تعلق رکھنے والے باپ اور بیٹی۔ ایدھی سردخانے کے باہر فہرست آویزاں ہیں۔ اٹھارہ میں سے پندرہ لاشوں کے نام معلوم ہو چکے ہیں۔ تین لاشیں جلد ہی نام پتے کے بغیر دفن کر دی جائیں گی تاکہ نئی لاشوں کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔

کراچی کے سول اسپتال کو جانے والے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے وی آئی پی موومنٹ ہو گی۔ بڑے لوگ اچھی اچھی باتیں کریں گے، تسلی دیں گے۔ شاید معاوضے کا اعلان بھی کردیں۔ پھر بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر چلے جائیں گے۔ اگلے سانحے تک کے لیے خدا حافظ۔

سڑک بنے گی اور نہ اسپتال۔ نورانی نور کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اور دھمال بھی بند نہیں ہوگا جو آج رقص بسمل بن گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments