وبا کے دنوں میں جبری مشقت


وبا کے دنوں میں جبری مشقت، کوئی نئی بات نہیں۔ البتہ، اگر جبری مشقت میں گرفتار افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے، جبری مشقت کی جہتیں بدل گئی ہیں، قانون کی بے بسی بڑھنے لگی ہے اور ریاست کے شہریوں سے تعلق پر سوال اٹھنے لگے ہیں، تو قابل فکر اور تشویشناک ہے۔

کرونا وبا کے دوران پاکستانی ریاست اور حکومت سمیت مقتدر اور پس دیوارفیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والوں کے چہرے بے نقاب ہو گئے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ 18ویں ترمیم اپنی گئی گزری حیثیت کے باجود وسائل پر اختیار رکھنے والوں کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان، جیسا لاک ڈاون کرنا چاہتے تھے ویسا نہیں کرسکے۔

 مطلب یہ کہ کچھ تو ایسے ہیں جو وزیر اعظم پاکستان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، پارٹی اور نظریہ کوئی بھی ہو، سیاسی طرز فکر و عمل کوئی بھی ہو، اہم نہیں۔۔۔

اگر وزیر اعظم پاکستان یہ سوچتا اور کہتا دکھائی دیتا ہے کہ ہم وبا سے نہیں، بھوک سے لازمی مر جایئں گے، جھوٹ تو نہیں۔

مبصرین کہتے ہیں کہ کرونا وبا کے دنوں میں ہدایات کے سوا، حکومت وقت کے پاس اپنے عوام کو دینے کے لئے، ہے بھی کچھ نہیں، یا دوسرے لفظوں میں، جب اہل ِحکومت چاہیں گے، اور جتنا، عوام کو دینا چاہیں گے، مل جائے گا۔

دہایئاں دیتی اپوزیشن کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ پی ٹی آئی سرکار کو عوام کے بڑے دکھ ہیں، کشمیری عوام کے دکھوں کے ساتھ ساتھ، عالمی برادری میں عمران خان کی بطور لیڈر، شخصیت طرازی، ایک الگ طرح کا دکھ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے قربتیں بھی ضروری ہیں، سعودی شاہی خاندان سمیت امرائے عرب سے دوستی بھی درکار ہے، اور خطے میں ترک قیادت سے ہم پلہ ہونا بھی نسخہ میں شامل ہے۔ ایک طرف چین کی ہمالہ سے بلند دوستی کا بھرم رکھنا ہے تو دوسری جانب امریکی سیاست سے براہ راست نبرد آزما ایران سے، اپنے کڑویلے کسیلے تعلق کو باقی رکھنا بھی ضروری ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ میں اپنے جرنیلوں تنخواہ داری پر چپ بھی رہنا ہے اور مسلم امہ کی قیادت کے شوق کی پرورش بھی کرنی ہے۔ غرضیکہ بہو رانی، شدت سے مصروف رہتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے لئے کوئی ایک مشکل ہو تو بندہ عرض کرے۔ کرونا پر جاری، چین امریکہ تنازع میں امریکی خوشنودی کا خیال رکھنا ہو، یا عالمی ادارہِ صحت کی پالیسی ہدایات عملدرآمد، کسی بھی صورت میں فیصلے کے اختیار والوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے، اور اوپر سے 18 ویں ترمیم۔۔۔ اور نیب نیازی گٹھ جوڑ کی باتیں۔۔۔ اپوزیشن کے پاس تو، عقل فہم نام کی، کوئی چیز نہیں، ارے بھئی چوری کی ہے تو، پکڑے تو جاؤ گے نا۔

وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ہم روز روز پیسے تو نہیں دے سکتے، اس لئے کاروبار تو کھولنے پڑیں گے۔ بات تو سچ ہے۔۔۔ بات یہ بھی سچی ہے کہ، پرایئویٹ ملازمت کرنے والے، ماہانہ تنخواہ لیتے ہوں یا کہ روز کی دیہاڑی، وہ پہلے بھی اکیلے تھے اور آج بھی اکیلے ہیں۔۔۔

چھوٹے اور بڑے سیٹھ، سبھی ایک بولی بول رہے ہیں، مارکیٹ میں کام نہیں تو دیہاڑی، اور تنخواہ کیسی؟ وزیر اعظم کو جوابدہ کسی ادارے نے بھی، یہ جاننے کی زحمت نہیں کی، کہ لاک ڈاؤن کے سبب، روزگار سے محروم ہو جانے والے لوگ، کس حال میں ہیں؟ صرف لاہور دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بے روزگار ہو جانے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ، ایک ایسا طبقہ بھی سامنے آیا ہے جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے، نوکریوں سے تو فارغ نہیں کئے گئے البتہ کاروبار ٹھپ ہو جانے کی بنیاد پر، یا تو انکی تنخواہیں روک لی گئی ہیں یا نصف کر دی گئی ہیں۔ سٹیٹ بنک سے تنخواہوں کے لئے ادھار کی سہولت نہ لینے والوں کی بھی لمبی فہرست ہے جو بنکوں کی مقروض نہیں ہونا چاہتی تھی البتہ شٹر ڈاؤن یا نصف تعداد کے ساتھ کاروبار جاری رکھ کر بھی تنخواہ اور دیہاڑی ندارد۔۔۔ اب یہ کام تو وزیر اعظم کا، یا حکومت کا نہیں ہے کہ وہ یہ دیکھتی پھرے، کاروبار تو پورا چل رہا ہے، تنخواہ پوری کیوں نہیں۔۔۔؟

سیٹھ اور ورکر کا آپسیں تعلق اس بنیاد پر چلتا ہے کہ دونوں فریقین دیانت اور سچائی کے ساتھ اپنے وعدے وفا کرتے ہیں۔ کام پورا ۔۔۔اور دام پورا کا اصول زندہ رکھنے کے لئے حکومتیں قانون بناتی اور ادارے قانون کا نفاذ کرتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ملک میں، اجرِ محنت یا مزدوری کی بروقت ادایئگی کے تحفظ کو قانونی حیثیت حاصل نہیں، بلکہ جبری مشقت کے خاتمے کے لئے حکومت و ریاست دونوں اپنے پارلیمان، عدالت اور عوام کو جوابدہ بھی ہیں اس کے باوجود کاروباری مندے کا بہانہ بنا کر ورکروں کی تنخواہوں اور دیہاڑیوں کی لوٹ مار کرنے والے سیٹھوں کی بھی کمی نہیں۔ ٹریڈ یونین مجبور اور معذور ہے تو ادارے مزدوروں اور ورکروں کو اجرِ محنت بروقت دلوانے میں ناکام۔ کرونا وبا لاک ڈاؤن نے سیٹھوں اور منہ زور پرایئوئٹ اداروں کے مالکان کو جبری مشقت کا ایک اور موقع فراہم کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments