معاشرے کی ترقی میں اخلاقیات کا کردار


ہم اپنی زندگی میں جب بھی کسی مثالی معاشرے کی بات کرتے ہیں یا مثال دیتے ہیں تو فوراً اسلام کے ابتدائی ادوار میں چلے جاتے ہیں۔ ریاست مدینہ کی مثالیں دیتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان بھی پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کاعزم لے کر اقتدار میں آئے ہیں۔ ابھی تک نہ سر کا پتہ ہے نہ پیر کا۔ حالات وقت کے ساتھ ساتھ بد سے بد تر ہوتے جا رہیں ہیں۔ عام آدمی کے حالات بہت نازک ہوتے جارہے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ کرونا وائرس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہوا ہے، دنیا کا کوئی ملک اس وبا سے نہیں بچ سکا۔

ہم نے ہمیشہ ان نازک حالات کا ذمہ دار پچھلے حکومتوں، حکمرانوں اور موجودہ حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ ہم نے بحیثیت عوام کبھی اپنی کوتاہیوں پہ غور کیا ہے؟ ہم خود کتنے پانی میں ہیں؟ حکمران اگر کرپٹ ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہیں۔ میرے خیال میں ان سب مسائل کے ذمہ دار حکمرانوں سے زیادہ عوام ہیں۔ عوام خود ان سنگین مسائل کے ذمہ دار ہیں۔

ہمارے حکمران ان ستر سالوں سے خلا سے تو نہیں آرہے ہیں، پاکستان کے ہی بیٹے ہیں، ریاستی اداروں کے تمام سربراہان آسمان سے تو اچانک نہیں اترے ہیں اس معاشرے میں پیدا ہوئے اور جوان ہوئے یہاں سے تعلیم حاصل کی۔ پھر مختلف ریاستی اداروں کے عہدوں پہ فائز ہوئے اس کے بعد ہر بندے کی جتنی چونچ تھی اتنا ہی اس ملک کو لوٹا اور آج تک ہر بندہ اپنی اپنی بساط کے مطابق اس ملک کو لوٹ رہا ہے جس کو جتنا موقع ملتا ہے اتنا زیادہ لوٹ رہا ہے پھر بھی ذمہ دار صرف اور صرف حکمرانوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔

ہم خود اپنی اپنی کوتاہییوں پہ پردہ ڈال کر مسائل کا ذمہ دار حکمرنوں کو ٹھہرا کر خود بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔ میں آپ سب کے سامنے میں چند سوالات رکھتا ہوں، ہم سب ان مسائل کے ذمہ دار کیسے ہیں۔ کیا ہم اپنی ذاتی مفادات کے لیے روز ریاستی مفادات کو نقصان نہیں پہنچاتے؟ کیا کھانے پینے کے چیزوں میں ملاوٹ ہم نہیں کرتے؟ کیا رمضان المبارک اور نازک حالات میں ہم تمام چیزوں کی قیمتیں اپنی اپنی مرضی سے نہیں بڑھاتے؟

کیا چپراسی سے لے کر افسر شاہی تک سب اپنی اپنی بساط کے مطابق اس ملک کو نہیں لوٹتے؟ کیا کیمیکل سے بنا ہوا دودھ ملک کے ہر بڑے چھوٹے شہروں کے بازاروں میں فروخت نہیں ہوتا؟ کیا جھوٹ، بلیک میلنگ، ذخیرہ اندوزی اور ناپ تول میں کمی ہم نہیں کرتے؟ کیا ہمارے ہوٹلز، ریسٹورینٹ اور کھانے پینے کے مراکز گندگی اور غلاظت سے بھرے ہوئے نہیں ہیں؟ کیا ہمیں ہر قدم پر غیرمعیاری اور مضر صحت اشیا دستیاب نہیں ہیں۔ یہ سب بے ایمانی ہم کسی دشمن کے کہنے پر کر رہے ہیں یا حکمرانوں کے کہنے پر؟

ہم کس طرح اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ جو اپنے آپ کو خود تباہ کرنا چاہتا ہو اس کے لیے کسی دشمن کے سازش کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمارے ملک کا کون سا ادارہ ایسا ہے جو لوٹنے سے بچا ہوا ہو؟ ہم جب بھی کسی کام کے سلسلے میں کسی سرکاری دفتر میں جاتے ہیں تو کیا ہمارے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں؟ جب آپ کسی سرکاری دفتر میں کسی مجبوری کے تحت جاتے ہیں تو وہاں کا چپراسی بھی آپ کو حقارت سے دیکھتا ہے۔ اگر کسی سرکاری دفتر میں افسر یا ملازم نے آپ کا کوئی کام کر بھی دیا تو اپنا فرض سمجھ کر کبھی نہیں کرے گا بلکہ آپ پہ احسان جتا کر کرے گا۔

ہماری عدالتوں میں جھوٹی وکالت کرنے والے اور پیشہ ور گواہ آپ کو بآسانی مل جائیں گے۔ ہمارے تمام قانونی ادارے جو اب تک عام بندے کو انصاف اور تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ ہمارے ججز بد دیانت، ہمارا میڈیا جھوٹا۔ ہمیں کوئی ایسا ادارہ مشکل سے بھی نظر نہیں آتا جو اپنے فرائض ایمانداری کے ساتھ انجام دے رہا ہو۔ پھر ہم ریاست مدینہ کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ ان تمام فریب کاریوں کے باوجود اپنے آپ کو ایک پکا مسلمان بھی سمجھتے ہیں۔

حضور ﷺ نے جب ریاست مدینہ بنائی تھی تو اخلاقیات کو بنیاد بنایا تھا آپ ﷺ نے اخلاقیات پر خود عمل کر کے دکھایا بھی اور عام لوگوں کو اخلاقیات کے بارے میں تعلیم بھی دی۔ یوں آپ ﷺ نے سب سے پہلے تمام مسلمانوں کو اخلاقی طور پر مضبوط کیا پھر ریاست مدینہ جیسی مثالی ریاست بنانے میں کامیاب ہوئے۔ تئیس سال کے قلیل عرصے میں اسلام کو پورے عرب میں پھیلایا۔ آج ہمارے معاشرے میں ہر بندہ رسول اللہ ﷺ کے تعلیمات کے الٹ جا رہا ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا جو جھوٹ بولتا ہے وہ ہم میں سے نہیں، جو ملاوٹ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں، جو ناپ تول میں کمی کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔ یہ سب کام ہم روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو محمد ﷺ کا سچا امتی قرار دے کر اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دے کر اپنے آپ کو خوش بھی کرتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں یہ معاشرہ جھوٹ اور منافقت سے بھرا ہوا معاشرہ ہے۔ یہاں پہ ہر بندہ کہتا کچھ اور ہے کرتا کچھ اور۔

ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر بدترین اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ ہم سب کو اپنے اپنے مفادت کے سوا ریاست کے مفادات نظر آتے ہیں نہ ہی کسی دوسرے بندے کا۔ ان اعمال اور اخلاقیات کے ساتھ ہم کس طرح ریاست مدینہ کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ ہم کس طرح دنیا کے ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہو کر اپنا لوہا منواسکتے ہیں اجتماعی مفادات یا ریاستی مفادات کے بارے میں سوچ دور دور تک ہمارے سوچوں میں بھی نہیں۔

حب الوطنی کے کھوکھلے جذبات میں ہم پوری دنیا میں سب سے آگے ہیں صحیح معنوں میں ہمیں حب الوطنی کا مطلب بھی نہیں پتہ۔ حب الوطنی کا مطلب ہے انفرادی مفادات کے مقابلے میں ریاستی مفادات کو فوقیت دینا۔ یہ سوچ ہمارے معاشرے میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ ملک کیا خاک ترقی کرے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاستی مفادات کا خیال رکھنا عام بندے میں دور کی بات ہمارے سی ایس ایس کولیفائڈ لوگوں میں بھی نہیں ہیں۔ جب ہماری بیوروکریسی میں غلطی سے بھی ایک ایماندار افسر آئے تو اس افسر کا جینا دوبھر کیا جاتا ہے۔ ان اخلاقیات کو لے کر نہ ہم ریاست مدینہ بنا سکتے ہیں نہ دنیا میں ہمارا کوئی مقام بن سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments