ٹرمپ کی فتح اور پاکستان میں صفِ ماتم


\"muhammad ٹرمپ کی فتح سے پاکستان میں صفِ ماتم بچھ گئی ۔ نام نہاد جمہوریت کے ’چیتے‘ اس جیت کو قبول کرنے کے بجائے بھانڈ پن پر اتر آئے۔ اچھے بھلے سنجیدہ لکھنے والے ڈرائنگ روم دانشور ٹرمپ کی جیت کا چیزہ لینے کیلئے طنز لکھنا شروع ہو گئے۔ ہمارے کئی پسندیدہ لکھاری، جوصاحبِ علم ہیں اور سنجیدگی اور اعتدال سے لکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے ٹرمپ کی جیت کا ماتم کرتے ہوئے اپنے کالم میں!

ارے بھائی ہلیری کی ڈولی اٹھے یا میت، ہمیں اس سے کیا لینا دینا؟ اگر ’ماسی‘ ہلیری جیت جاتی تو کیا پاکستان میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہنی شروع ہو جاتیں؟ اور اگر ٹرمپ کامیاب ہو گیا ہے تو کیا پاکستان کو نیست و نابود کر دے گا؟ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ! جمہوریت کی عظمت پر صبح شام لیکچر دینے والے اب اسی سسٹم کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ کیا جی کہ ٹرمپ تو ایسا ہے، ٹرمپ تو ویسا ہے، اس کی جیت حق اور اخلاقیات کی شکست ہے۔ ہر وہ ووٹر جاہل، گنوار، بد اخلاق، لچا، لفنگا، چرسی، بھنگی ، مصلی، چور، کن کٹا، راکشش جس نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ اور ہر وہ ووٹر جس نے ماسی کو ووٹ دیا فرشتہ، دیوتا، بھگوان یا ارجن!

آفرین ہے آپ لوگوں کی منافقت پر۔ جب پاکستانی ووٹر بار بار آزمائے ہوئے چوروں ، لٹیروں، غنڈوں، بدمعاشوں کو اقتدار میں لائے تو ہمیں یہ پاٹھ پڑھایا جائے کہ یہ بیلٹ باکس کی طاقت ہے، عوام کی رائے ہے، اس کا احترام کیا جاوے۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہنے کے باوجود honorable minister مگر ٹرمپ بدتمیز! جب ووٹر امریکہ کا ہو اورووٹ ماسی کے بجائے ٹرمپ کو دے تو عام سے الیکشن کو بنا دو ایک کربلا۔ ارے بھائی یہ کوئی حق و باطل کا معرکہ نہیں۔ ماسی کون سی بی بی پاک دامن ہے جس کا پلو فرشتوں نے بھی نہیں دیکھا۔ ہمیں تو گفتگو سے ہی bimbo لگی۔ لیکن ٹہریے حضور ہم غلط کہہ گئے۔  bimboتوانگریزی بھاشا میں ایک انتہائی خوبصورت خاتون کو کہتے ہیں جس کے پاس سوائے جسمانی حسن کے اور کچھ نہ ہو اور اوپر کا خانہ یعنی دماغ خالی ہو۔ یہ تو عمر رسیدہ بڑھیا ہے جس کا حسن کب کا مر کھپ چکا ہے۔ چہرے کی ہزاروں جھریاں چونے کا ڈرم لگانے سے بھی نہیں چھپتیں ۔ ٹرمپ جو بھی کہتا تھا وثوق سے کہتا تھا۔ ادھر ادھر کی کہانیاں یا بول بچل نہیں لگاتا تھا۔ ٹرمپ تو ہمیں Colonal Frank Slade والے کیریکٹر کی طرح لگا جو کہ فلم Scent of a Womanمیں Al Pacinoتھا۔ ٹرمپ کرنل فرینک کی ہی طرح منہ پھٹ تھا۔ جو منہ میں آئے سب کے سامنے کہہ دیا۔ اس فلم کی جان Al Pacinoکی تقریر میں ہے جو کہ وہ آخر میں لڑکے کے سکول میں جا کر کرتا ہے اور سب سننے والوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔\"donald-trump-making-funny-face\"

جو خودساختہ دانشور ٹرمپ کی ذات پر کیچڑ اچھال رہے ہیں اس کے اس بیان کولے کر کہ اس نے کہا کہ یہ تارکینِ وطن کا داخلہ امریکہ میں بند کر دےگا۔ تو عرض یہ ہے کہ یہی نام نہاد دانشور افغان مہاجرین کے حوالے سے ایسی ہی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ انہوں نے ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر پاکستان میں متعارف کروایا اور ہمارے ٹرانسپورٹ کے کاروبار پر چھا گئے۔ انہیں فی الفور ملک بدر کرو اور ہم کر بھی رہیں ہیں۔ شربت گلہ جیسی بے ضرر اور مظلوم عورت کو پاکستان سے باہر نکال کر ہم نے ملک اور اسلام بچا لیا ہے۔ عورتوں پر ٹرمپ نے اتنے جملے نہیں کسے ہوں گے جتنے ہمارے’شیدے‘ نے کسے۔ لیکن ہمارا میڈیا ہیرو شیدے کو ہی بناتا ہے۔ شیدا ٹی وی چینلز کی جان ہے۔ قومی اسمبلی کا ممبر بھی ہے۔ تو پھر پاکستانی ووٹر کو بھی رگڑا دو نا بھائی جو شیدے کو ہر الیکشن میں کندھوں پر بٹھا کر پارلیمنٹ میں لے آتا ہے۔ اور پوچھو ان ٹی وی چینلز سے جو اس بدتمیز کو دن میں دس بار بلاتے ہیں۔

ٹرمپ کو گالیاں دی جا رہی ہیں۔ اس کے بارے میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ اسلام اور پاکستان کا دشمن ہے۔ واہ بھئی واہ۔ جیسے اوبامہ اور ماسی ہلیری توصوم و صلوة کے پابند ہیں۔ تہجد گذارہیں۔ ہمیشہ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کا دفاع کرتے رہے۔ ملا عمر کو امیراالمومنین مانا۔ حافظ سعید کو اسلام کا عظیم سپاہی مانا۔ توہینِ رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف ڈٹے رہے۔ ہر فورم پر جا کر یہ بیان دیا کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ غیرت کے نام پر عورتوں کے قتلِ عام کے حق میں مظاہرے کئے۔ عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینکنے کے واقعات پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے۔

ہمارے ہاں ایک فوجی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیتا ہے اور عوام مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ نام نہاد دانشور اس کا دفاع کرتے ہیں کالم لکھ کر یا ٹی وی پر۔ گریڈ اکیس کے \"trump3\"آرمی چیف کا ریٹائر ہونا عام سے عام ملک میں بھی انتہائی عام سی بات ہے۔ مگر یہاں اس کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آنے پر’شامِ غریباں ‘ شروع ہو جاتی ہے۔ بینرز پر بینرز چھپنے شروع ہو جاتے ہیں کہ خدارا رک جاﺅ ورنہ پاکستان تباہ ہو جائے گا۔’نہ جاﺅ سیاں چھڑا کے بیاں، قسم تمہاری ہم رو پڑیں گے!‘ والا سماں بن جاتا ہے۔ جن لوگوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے ان کے معاشرہ میں اس قسم کا مسخرہ پن نہیں پایا جاتا۔ بہت ہی زیادہ سمجھدار لوگ ہیں وہ ہم سے۔ ٹرمپ نقب لگا کر نہیں آیا۔ ایک مکمل جمہوری عمل سے گذر کر الیکشن جیتا ہے۔ ماسی ہلیری کو چاہیے کہ اپنی شکست پر مگر مچھ کے آنسو بہانے کے بجائے اسے کھلے دل سے قبول کرے اور ’روندی‘ نہ ڈالے ۔ بیکار میں اپنے چمچوں کے ذریعے مظاہرے کرانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ امریکہ میں کوئی’راحیل شریف‘ نہیں جو ٹرمپ کو سعودی عرب بھیج کر ماسی ہلیری کے سر پر تاج رکھ دے گا۔ اوروائٹ ہاﺅس کوئی رائے ونڈ پیلس نہیں کہ جو ’بھائی جان‘ نے کہہ دیا وہ دستور بن جائے۔ یہ امریکہ ہے۔ یہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے قاعدے کلیے سے ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ٹرمپ صاحب کے منہ سے نکلے ہوئے لفظ حرفِ آخر بن جائیں گے۔

ٹرمپ کی جیت پر جو ردِعمل ترقی یافتہ ملکوں سے آیا اسے دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ انکی Pakistanizationکی شروعات ہو چکی ہے۔ چلو پاکستانی تو جاہل اور جذباتی ہیں مگر آپ کو کیا ہو گیا؟ آپ تو وہ ردِعمل نہ ظاہر کرو جو ہم لوگ کر رہے ہیں۔ حضور آپ کو بھی کیا الزام دینا۔ خود امریکی اپنے ہی آدرشوں کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ٹرمپ کی فتح کو تسلیم نہ کر کے!

\"Donald

جو ردِعمل ٹرمپ کے حوالے سے ہوا جس وقت سے اس کی الیکشن مہم شروع ہوئی ،کچھ اس جیسا ہی ردِعمل تھا مودی کے حوالے سے۔ گجرات کا قصائی تھا مودی کا لقب۔ کیا کچھ نہیں کہا جا رہا تھا۔ اگر مودی آ گیا تو آسمان پھٹ جائے گا! مگر کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں! نواز شریف نے مودی جی کے ساتھ اور مودی نے ان کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانا شروع کر دیں جو کہ مقتدر اداروں کو جن کے ہاتھ میں پاکستان کی باگ دوڑ ہے پسند نہیں آئیں ۔ ہم لوگ جلد بھول جاتے ہیں۔ اوبامہ نے بھی اپنی الیکشن مہم میں یہ کہا تھا کہ وہ پاکستان پر حملہ کر دے گا اور اس وقت کے وزیرِ خارجہ خورشید قصوری نے سخت الفاظ میں اس کی مذمت کی تھی۔ لیکن ہوا کیا؟ کچھ بھی نہیں۔ ارے بھئی ایک اصطلاح ہے Playing to the galleryجس پر اوبامہ نے بھی عمل کیا، مودی نے بھی اور ٹرمپ نے بھی۔ مہم کے دوران انسان جذبات اور اشتعال میں اول فول بک ہی دیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں امریکیوں نے اس اول فول کے باوجود ٹرمپ کو صدر چنا؟ اگر انہوں نے غلطی کی تو کوئی بات نہیں۔ انسان غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے۔ اور یہ سمجھنا بھی قبل از وقت ہے۔ ابھی تو بیچارے ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنا ہے۔ کیا معلوم وہ ایسے ایسے کام کر جائے کہ دوبارہ صدر منتخب ہو جائے!

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments