جدید ٹیکنالوجی، شیطانی چرخے اور اہل مدارس کا کردار


والد مرحوم معروف مذہبی عالم دین تھے۔ میں نے کم سنی سے ہی ہر مکتبہ فکر کے ممتاز اور جید علمائے کرام، شیوخ و عظام، جامعات کے محقق اساتذہ،  صحافت کے قلم کار، کتابوں کے مصنفین، قانون کے ماہر وکلاء، مسند انصاف کے ججزحضرات اور سیاست کے رموز کے واقف سیاستداں، ایوان اقتدار کے اراکین و ارباب اختیار، معاشی، سماجی و ادبی علمی شخصیات الغرض ہر شعبہ فکر کے چیدہ چیدہ لوگوں کا ملاقات کے لیے آنا جانا، اوران کی علمی مجلس میں قومی اور بین الاقوامی صورتحال کے علاوہ دینی امور کی ہر جہت پر اظہار خیال ہوتا دیکھتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ مجھے اس وقت کم عمری کے سبب بڑی بڑی نامور شخصیات کی آمد اور ان کے ساتھ کی جانے والی علمی گفتگو کے معیار کا کچھ زیادہ ادراک نہ تھا۔ لیکن یہ اندازہ ضرور تھا کہ علم کی مجلس ہے۔ کلام شائستہ اور مہذب ہے۔ آواز دھیمی و نرم ہے۔ آپس میں تبادلہ خیال ہے نہ کہ بحث و مباحثہ۔

ان مہمانوں کے جانے کے بعد جستجو کے سبب والد سے معلوم کرتا کہ کون شخصیت تھی تو پھر وہ بغیر کسی فخر و مرعوبیت کے آگاہ کرتے۔ وقت کے گزرنے کےساتھ جب شعور کی منزلوں میں قدم رکھا تو کچھ کچھ سمجھ بھی آنے لگا۔ والد گرامی ہر قسم کے مسلک و مکتب کی چھاپ سے علیحدہ صرف ایک عام مسلمان تھے۔ نہ ارد گرد مجمع لگانے کا شوق اور نہ ہی خدمت گزاروں کی فوج، نہ حرص جاہ و ہشمت تھی اور نہ حصول دولت و شہرت کی تمنا۔ یہی وجہ ہے کہ دو مرتبہ وفاقی شرعی عدالت کے جج بننے کا کہا گیا تو کہہ کر انکار کردیا کہ اس منصب کا نہ بوجھ اٹھا سکتا ہوں اور نہ ہی اپنے آپ کو اس منصب کا اہل سمجھتا ہوں۔

مجھے اس بات کا اعزاز ہے کہ ان کی حالات زندگی، افکار خیالات اور مختلف اداروں میں قومی سطح کی خدمات پر جامع کام کر چکا ہوں۔ جیسے جیسے مختلف شعبہ جات کے ماہرین اور اہل مدارس کی جانب سے تحریری خیالا ت یکجا کرتا رہا تومجھے اندازہ ہونے لگا کہ تحقیق کے میدان میں فہم و شعور کی بنیادیں اتنی مستحکم تھیں کہ انہوں نے فہم و فراست کے ساتھ کسی مرعوبیت اور خوف کے بغیرمعاشی و سماجی معاملات میں روایت کی مضبوط زنجیروں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیا تھا۔ میری نظر میں اس کی اہم وجہ مطالعہ میں وسعت قلبی، تحقیق کی جستجو اور غیر جانبدارانہ مزاج تھا۔

میرا پہلا مشاہد ہ کچھ اس طرح سے تھا کہ غالباً 77 سے 78 کا سن تھا، ہمارے گھر ایک پرانا ساہٹاچی کمپنی کا وال والا بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن ہوا کرتا تھا۔ والد مرحوم کےٹیلی ویژن پر دو پروگرام آتے تھے۔ ایک پروگرام تفہیم دین جوکہ اس وقت کا پہلا عالم آن لائن تھا۔ جس کی میزبانی کے فرائض حسنین کاظمی مرحوم کیا کرتے تھے اور دوسرا پروگرام فہم قرآن کا تھا جس میں قرآن کے مختلف موضوعات پر حاضرین و ناظرین سے خطاب تھا جس کے آخر میں کچھ سوالات بھی ہوتے تھے۔ اس پروگرام کےمعروف پروڈیوسر تاجدار عادل صاحب ہوا کرتے تھے۔ والد گرامی کے ٹیلی ویژن کے علاوہ ریڈیوں پروگرامز بھی طویل عرصہ تک رہے اور اصلاحی موضوعات پر 400 کے لگ بھگ تقاریر نشر ہوتی رہیں۔

اس وقت ٹیلی ویژن اور تصویر پر حرام کا فتوی زیر گردش تھے۔ ٹیلی ویژن پر نظر آنے لگے تو ساتھ ہی ساتھ کچھ اہل مدارس کے ڈھکے چھپے اعتراضات سامنے آتے رہے کہ توبہ ہے یہ کتنے بڑے عالم دین ہیں اورایک ناجائز اور شیطانی چرخے کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کے ابتدائی دور میں جب خال ہی خال کسی کے گھر ریڈیو، ٹیب ریکارڈر، ٹیلی ویژن اور صورت کشی یعنی فوٹوگرافی کے لیے ساکن کیمرہ ہوتا تھا۔ اورجو بھی نئی ٹیکنالوجی ظاہر ہوتی، اس پر اہل مدارس اپنی رائے کا خوب اظہار فرماتے اور پھراُمت کے لیے نہ صرف ناجائز سمجھتے بلکہ ایسی تمام ٹیکنالوجی کو شیطانی وسوسوں اور چرخوں، فرنگی چال اور دجل سے تعبیر فرماکر اپنے قلوب و اذہان کو مطمئن کرتے۔ ٹیلی ویژن کے بارے میں کچھ اہل علم کی یہ رائے رہی ہےکہ یہ سامراج کا ایک خطرناک آلہ ہے جس کا حصہ ہر گز نہ بنا جائے۔ دوسرے طبقہ نے اسے خالص شیطانی آلہ سے تعبیر کیا۔ اور کچھ اہل علم یہاں تک معترض ہوتے ہوئے عام اعلان بھی کر گئے کہ ٹی وی دیکھنا تو دور کی بات ہے اس کا گھر میں رکھنا بھی حرام ہے۔

میری طرح کے بے شمار لوگ کئی ایسے نامور اہل مدارس کے اداروں اور علمائے کرام و مفتیان عظام سے واقف ہونگے کہ جو آج بھی ایک جانب اپنے اسلاف کے فتووں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن دوسری جانب حیرت انگیز طور پر ان ہی میں سے کچھ علمائے کرام و مفتیان عظام جب اپنے دینی درس گاہوں سے فارغ اور آزاد ہوتے ہیں اور اپنا مستقل دینی ادارہ بنا لیتے ہیں تو پھر رائے میں لچک پیدا ہوتی نظر آتی ہے اور وہ ٹیلی ویژن پر فخریہ دینی پروگرام پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ شاید انہیں بہت دیر سے یہ باور ہوجاتا ہے کہ بطور دعوت دین اس کا استعمال درست عمل ہے۔

یہ تو سب کو معلوم ہی ہے کہ ٹیلی ویژن کی پہلی حیرت انگیز ایجاد انگلیڈ کےسائنس دان” جان لوئی بیرڈ”نے 1926ء میں جب کہ پہلاکیمرہ فرانس کے “جوزف نیپس” 1826ء ایجاد کیا۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اسکا آغاز26نومبر1964میں ہوا۔ اکتوبر 1964ءمیں تجرباتی بنیاد پرجاپان کی ایک کمپنی نپن الیکٹرک کمپنی کے تعاون سے پاکستان کے دوشہروں لاہوراورڈھاکہ میں ٹیلی ویژن اسٹیشن کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

ٹیلی ویژن اور کیمرے کے آتے ہی ان پر علمی مباحث کا ریکارڈ فتووں کی ضمن میں مضامین اور کتابوں کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ جسے پڑھنے کا بہت پہلے ہی اتفاق ہو چکا تھا۔ کچھ اہل مدارس کی رائے میں جہاں ٹیلی ویژن کو فتنہ قرار دیا وہاں کیمرہ بھی اسی زد میں آیا۔ کیمرے کی تصویر جس عکسی فلم سے بنائی جاتی تھی وہ ساکن شبیہ کے مترادف تھی اور اسلام میں ہر قسم کی شبیہ حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سینما کے پردے پر چلنے والی فلم کے پیچھے بھی عکسی فلم کی شبیہ ہوتی تھی جس کے متواتر چلنے سے تصویر میں حرکت پیدا ہوتی تھی۔ وہ شبیہ چاہے ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا کیمرے سے، دونوں صورتوں میں حرام ہی رہی۔ یقینا یہ ان اہل علم کی ایک رائے ہے جس کا احترام لازم ہے۔

یہ بات ابھی ختم نہ ہو پائی تھی کہ جدید دنیا کے انقلابات میں ایک اور نئی ایجاد انٹر نیٹ کی پیدائش عمل میں آئی۔ ابھی وہ بھی کم سنی میں تھا کہ اس بے چارے کو بھی فتووں نے آن گھیرا، کسی ویب سائٹ پر سر سے اترا ڈوپٹہ کا اشتہارات دیکھ کر انداز لگایا کہ بس اب فتنے کا دور تیزی سے پھیل رہا ہے اور آخری حد ہے۔ لیکن جب اس سے آگے براہ راست ویڈ کال کا آپشن آنے لگا تو وہم و گمان نے اور منفی خیالات کو مضبوط کیا۔ اس سے قبل یہ منفی خیالات عوام کی دسترس میں آجائیں اور وہ گمراہ ہوجائیں، انہیں گمراہی سے بچانے کے لیے کچھ حکماء نے فوری وہی حکم سنایا کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس شیطانی چرخے کو ہر گز استعمال نہ کیا جائے اور حتی الامکان احتیاط کی جائے تاکہ عقیدہ ایمان محفوظ رہ سکے۔

اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں کچھ تھوڑا سا جھانک کر دیکھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ بے شمار مسائل پر اہل علم کے درمیان علمی مباحثہ رہا ہے جس کے مطابق ناجائز و حرام پر مشتمل فتوے سامنے آتے رہے ہیں۔ مثلا ایک فردکا خون دوسرے کو منتقل کرنے، انسانی اعضاء کے عطیہ، قرنیہ کی پیوند کاری، پوسٹ مارٹم میں چیر پھاڑ وغیرہ۔ اسی طرح ٹیکنالوجی میں ریل گاڑی، جہاز، لاوڈ اسپیکر، ٹیب ریکارڈر، ریڈیو، کیمرہ، ٹیلی ویژن، انٹر نیٹ، موبائل فون، ہاتھ سے بنائی تصویر کشی وغیرہ۔ معاشی میدان میں بینکاری، پرائز بانڈ، کرنسی نوٹ، کریڈٹ کارڈ، انشورنس، قسطوں میں خرید و فروخت جیسے بے شمار مسائل۔ سیاسی میدان میں شوری کا نظام، خلافت کا نظام، بادشاہت کا نظام، جمہوری نظام اور صدارتی نظام، عورت کی حکمرانی وغیرہ۔ تعلیمی میدان میں فرنگی نظام تعلیم کو استعماری فتنہ قرا ر دینا، خواتین کا تعلیم حاصل کرنا، سماجی عنوانات پرعورت گھر سربراہ، گھر سے باہر ملازمت، ایئر ہوسٹس کی ملازمت وغیرہ شامل ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ مختلف مکاتب فکر میں عقیدوں اور نظریوں کے شدید اختلافات، اپنے آپ کو برتر اور دوسرے کو کم تر ثابت کرنے کے علمی مباحثے، مناظرے اور مجادلے بھی نظر آتے رہے ہیں۔

 وہ مذہبی شخصیات اور دینی ادارے جہاں سے جدیدٹیکنالوجی کے استعمال کرنے پر ایک خاص رائے کا اہتمام ہوتا تھا۔ لیکن تیزی سے بدلتے وقت نے ایسی تمام از خود قرار دیے جانے والی ناجائز و حرام کی کمزور دلیلیں، کچھے دھاگوں کی طرح ٹوٹنے اور بکھرنے لگی ہیں۔ وہ تمام تر خیالات کتابوں تک محدود ہوچکے ہیں۔ بے شمار دینی ادارے کے نئے محققین  بدلتے چیلنجز کی اہمیت و افادیت کوسمجھتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو درست قرار دینے لگے ہیں۔ انٹر نیٹ عام ہو نے کی وجہ سے موبائل فون کے ذریعے سوشل میڈیا کے ہر ایپ کا استعمال تیزی کے ساتھ ہر ایک کی ضرورت بنتا جارہا ہے۔ اس برق رفتاری سے اب بچنا مشکل نظر آتا ہے۔ ہر جدید مسئلہ کو تحقیق کی عمیق نگاہ اور حالات حاضرہ کے پیمانے سے پرکھنے کی کوشش کی جانے لگی ہے۔ آئے دن ٹیکنالوجی نت نئے انداز میں ڈھل کر ڈیجٹلائزڈ ہونے لگی ہے۔

سائنس کی اس دنیا میں جدت کا ایک وسیع انقلاب پیدا ہوتا۔ جارہا ہے۔ پچاس آدمیوں کا کام ایک مشین کرنے لگی ہے۔ انگلی کے اشارے سے ہزاروں، لاکھوں میل دور بیٹھے لوگوں سے براہ راست گفتگو ہوجاتی ہے۔ تالی بجاتے ہی لائٹ کھل اور بند ہوجاتی ہے۔ گرمی میں ٹھنڈ اور ٹھنڈ میں گرمی کا مزا ملنے لگتا ہے۔ موبائل فون کی صورت ٹیلی ویژن ہاتھ اور جیب میں آگیا ہے۔ لاکھوں میل دور بیٹھ کر اپنے کاروباری، دفتری مقام اور گھر کے افراد کی نقل و حرکت کو باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ دوربین کی شیطانی ایجاد نے چاند اور چندا کی تلاش کو آسان کر دیا ہے۔ جدیدیت کے شیطانی اڑتے پرندے اور شیطان کی آنت نےسفر کی طوالت کو مختصر کر دیا۔ خواتین کے الٹرا ساؤنڈ پر بھی اعتراضات ختم ہو گئے ہیں۔ دور کی اور قریب کی نظر کے چشموں سہولت پیدا کردی ہے۔ یہودو نصاری کی کمپنیوں کی موت سے بچنے کی دوائیوں اور آلات جدیدہ کو بھی قبول کرلیا گیا ہے۔ اب مدارس میں فرنگی کا نظام تعلیم بھی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ مدارس سے نکلنے والے طلباء گریجویٹ اور اسکالرز کہلانے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔ آن لائن دینی تعلیم کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ گویا کہ ماضی کی تمام بحثیں از خود دم توڑ تی جا رہی ہیں، ایسے تمام از خود تراشے گئے حرمت کے بت ٹوٹتے اور بکھرتےنظر آ رہے ہیں۔ جن سے بے شمارعقیدوں نے جنم لیے تھے۔

کیا صحیح ہے اور کیا غلط، کون حق پر ہے اور کون ناحق؟ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ وقت تیزی کے ساتھ بدلتا جا رہا ہے، نت نئی ٹیکنالوجی کا دائرہ بھی وسیع تر ہو رہا ہے۔ عقیدے اپنی جگہ مسلم حیثیت رکھتے ہوئے بھی اہمیت کے حامل رہیں گے۔ اب کسی بھی طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت سے انکار ممکن نظر نہیں آتا۔ علم و تحقیق کی دنیا میں وقت کے ساتھ اگر کوئی نہیں چلے گا تو وہ پیچھے رہ جائے گا۔ جدیدیت کے اس سفر میں وہی مسافر آگے بڑھتے چلے جائیں گے جو زمینی حقائق سےواقف ہونگے اور جنہیں علوم جدیدہ کی اہمیت کا اندازہ ہوگاوہی اس سے فائدہ اٹھانے والے ہونگے۔ جدید مباحث میں بھی وہی سر خرو اور کامیاب ہونگے جو حکمت ودانش اور فہم و فراست کی نگاہ بصیرت رکھتے ہوئے مسائل کا حل نکالیں کر تسلیم کرینگے۔

غیروں کی ایجادات نے دنیا کو سکھ دیے

ہم ہیں کہ مسئلہ جات سے آگے نہ جا سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments