جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا


بظاہر خوش نظر آنے والے لوگ اپنے دل میں کیسے کیسے درد سنبھالے ہوتے ہیں یہ کوئی نہیں جان سکتا۔ کسی کی تنہائی بارے کوئی کیا بتا سکتا ہے کہ ایک شخص تنہائی میں کتنا روتا ہے کتنا پریشان ہے لیکن باہر لوگوں سے میل ملاپ میں بالکل نارمل انسانوں کی طرح پیش آرہے ہیں۔ ایسے لوگ عام لوگ نہیں ہوتے بلکہ بہت دل گردے والے لوگ ہوتے ہیں جو یا تو زندگی کی حقیقت کو سمجھ کر اس پر سمجھوتا نہیں کرتے اور اپنا کام کردیتے ہیں اور اس فانی دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں اور کچھ لوگ جو مشکل وقت لو اپنے دل میں کاٹ کاٹ کر اپنا اندر چھلنی کرلیتے ہیں اور انہیں اور کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہوتی ہے تب جا کر وہ برداشت سے بڑا قدم اٹھاتے ہیں جسے خودکشی کہتے ہیں۔

ویسے تو خود کشی عام لگتی ہے کہ گولی کھالی اور فوت ہوگئے، رسی سے لٹکے اور انتقال ہوگیا لیکن خود کشی ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے آپ کا جگرا بہت بڑا ہونا چاہیے آپ سب سے زیادہ پیاری چیز جان کو ختم کرنے جا رہے ہیں۔ آپ اپنے ساتھ ملحقہ لوگوں کو بائی پاس کرکے یہ قدم اٹھانے جا رہے ہیں تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ بزدل ہوں یا ڈرپوک ہوں۔

ابرار حسین نیکوکارہ جیسے بڑے لوگ جو پاکستان میں اچھا عہدہ انجوائے کر رہے ہوں اور خودکشی کا نوٹ یہ الفاظ ہوں کہ میں حقیقت پاچکا ہوں تو انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ آخر ہم اتنے کم عقل کیوں ہیں۔ ہم اس حقیقت تک کیوں نا پہنچ پائے جس کی بات وہ کر گئے ہیں۔

سوشانت سنگھ راجپوت جیسے بڑے اداکار جو ہر آنکھ کا تارا ہیں۔ سوشانت کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک مکمل زندگی گزار رہے ہیں جس کی زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں ماسوائے اس کے کہ بارہویں جماعت میں والدہ کا دہانت ہوگیا اس کے علاوہ مکینیکل انجینئر، تعلیمی کیرئیر شاندار، ڈانسر، ایکٹر، اور تمام خواب پورے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ زندگی جینا پسند نہیں کی۔ ایسے لوگ جو خواب پورے کرتے ہیں ان کو زندگی بے معنی لگتی ہے اور وہ اسے ایک ایڈونچر ہی لیتے ہیں اور امر ہو جاتے ہیں۔ سینکڑوں ہزاروں اداکار آئیں گے لیکن سوشانت سنگھ کا نام الگ لسٹ میں ہوگا کہ یہ بہادر لوگ ہیں جو کامیابی کا استعارہ ہیں یہی لوگ ہیں جن پر زندگی رشک کرتی ہے۔

کچھ لوگ خودکشی کو ڈیپریشن کے ساتھ جوڑتے ہیں اور اس انسان کو کمزور کہتے ہیں جو خودکشی کرتا ہے۔ کئی ناقد لوگ خودکشی کرنے والے ابرار صاحب اور سوشانت سنگھ کو بزدل کہتے ہیں جن کی زندگی میں ایسا ممکن نا ہو ان جیسی شہرت، پیسہ حاصل کرسکیں تو وہ بھی رائے اس طرح دے رہے ہوتے ہیں کہ یہ بندہ زندگی کی تکالیف سے ہار گیا۔ حالانکہ انسان پیسہ، شہرت اور ناموری کے لیے ہی زندہ رہتا ہے ورنہ تو ایک بے مقصد زندگی کو بھی موت کہا جاتا ہے۔ جب خودکشی کرنے والوں پاس سب کچھ ہو تو ان کی خودکشی کو بھی کامیابی تصور کیا جانا چاہیے۔

زندگی جینا کسے کہتے ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ وہ زندگی مکمل جی بھر کر جی گئے ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ وہ آپ سے سو سال آگے رہ رہے تھے؟ تو جب ہمیں آپ کو موت آنی ہے موت نے زبردستی بوجھ اٹھا کر دھرتی کو ہلکا کرنا ہے جب کہ یہ لوگ تو اپنے حصے کا کام مکمل کرکے موت کے سامنے سرخرو ہیں اور زندگی کو قابل فخر بنادیا ہے۔

کچھ طبقات اس بات کو لے کر بیٹھ گئے ہیں کہ شہرت، دولت ہونے کے باوجود خودکشی کی ہے اس کا مطلب ان دونوں سے سکون نہیں خریدا جاسکتا ہے۔ سکون اور کس سے خریدا جاسکتا ہے؟ مادیت کے اس دور میں سکون صرف اور صرف مادیت سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ چورن اب نہیں بکنے والا کہ شکر کرتے یہ لوگ، یا مشکلات کا سامنا کرتے۔ وہ مشکلات کو حل کرکے موت کو گلے لگا کر گئے ہیں۔

حاصل کلام: زندگی آپ کی ہے پسند ہے تو گزاریے ورنہ کوچ کر جائیے۔ ناپسندیدگی میں روز روز مرنے سے بہتر ہے کہ ایک دفعہ ہی ابدی نیند سویا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments