فیس بک کی دنیا


فیس بکی دنیا کسی یوٹوپیا سے کم نہیں، یہاں کے خیالی اور ”مثالی“ معاشرہ میں صرف آپ کی پسند اور آپ کے نظریہ کو جینے اور سانس لینے کا حق ہے۔ یہاں کی لمحہ بھر کی تعریف اگلے لمحہ کی تنقید اور ایک پل کی تنقید اگلے پل کی تعریف بن جاتی ہے۔ لوگ وہی سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں جو انہیں پسند ہو، ایک ہی شخص کی لکھی پوسٹ پر ایک وقت میں تعریف ہوگی تاہم وہی شخص اگر مخالف پوسٹ لکھ دے تو قابل طعن ٹھہرے گا۔ ہم نظریات اور اصولوں پر اپنی پسند اور ناپسند کو استوار نہیں کرتے بلکہ ذاتی خواہش، ذاتی خوشی اور ذاتی شہرت کو اپنی پسند اور ناپسند کا معیار بناتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر دوسرا بندہ یا تو ہمیں بہت ہی اچھا لگتا ہے یا پھر انتہائی برا لگنے لگتا ہے۔

جنت الحمقاء کی جنتا تنقید، عدم برداشت اور اختلاف بصورت خلاف کے لیے ہمہ وقت آستین چڑھائے تیار رہتی ہے، کسی کی اچھی چیز کی تعریف میں سستی اور کسی کی سست باتوں پر چستی دکھانے میں اس ”مثالی“ جزیرہ کے باسیوں کا کوئی ثانی نہیں۔ تماشا تو اس وقت دیکھنے کا ہوتا ہے جب آپ کسی بھی شعبہ کے مقدس گائے پر لب کشائی کرتے ہیں، ”قدسی صفات“ جانثاروں کا غول آپ کی وہ درگت بناتا ہے کہ آئندہ آپ اس پلیٹ فارم پر لکھنے سے پہلے یا تو دس مرتبہ سوچتے ہیں یا پھر یہ پلیٹ فارم ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

عیب جوئی، طعنہ زنی، اور دروغ گوئی میں ہم غیر محسوس طریقے سے اس قدر تاک ہیں کہ اگر کوئی ہمیں ہماری بیماری سے متعلق آگاہ کرے تو ہم کہنے والے کو ہی علمی افلاس کا شکار اور بیمار ذہنیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ غوزیں اڑانے، شیخیاں بگھارنے اور گپیں ہانکنے میں ہمارا کوئی موازنہ نہیں۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی رسہ کشی میں فریق مخالف کا ہر اچھا عمل برا اور ہر برا عمل باعث فسق و فجور ٹھہرتا ہے۔ کمنٹس بار میں اگر غصہ نکالنے کا موقع میسر نہ آئے تو میسینجر میں گھس کے اکیلے اکیلے پاگلوں کی طرح دیواروں کو گالیاں بک کر نکل جاتے ہیں۔

یہاں کے بڑوں کی بھی اپنی دنیا ہے، خود اپنی پوسٹس پر بھیڑ لگانے کا سستا شوق رکھتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی چھوٹا، جونئیر اگر کبھی اچھی تحریر یا اچھی پوسٹ کردے تو اس پر کمنٹ کر کے حوصلہ افزائی تو دور کی بات ایک انگلی سے لائک والا ٹھینگا بھی نہیں دبتا۔ منطق یہ ہوتی ہے کہ یہ تو ابھی نو آموز ہیں، ان کی تحریریں ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتی۔ کبھی کبھار اگر تحریریں ”مزاج شاہی“ سے ہم آہنگ ہو بھی جائیں تب بھی لاعلمی کا بہانہ ایسا ہتھیار ہے جس کے استعمال سے پہلے ہی سامنے والا قائل اور ڈھیر ہوجاتا ہے۔ بڑوں میں چند مستثنیات ایسے ضرور ہیں جو ناصرف حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ حوصلوں کو مہمیز دیتے ہیں، آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں اور یہی اصل اعلی اور بڑے لوگ ہیں، باقی سب اناؤں کا مجسمہ اور تکبر کا مجموعہ ہیں۔

الغرض! فیس بک سے زیادہ سستا نشہ کوئی نہیں، ہم میں سے ہر ایک اس کی لت میں مبتلا ہے، سوائے چند ایک مخلصین کے۔ سستی شہرت اور منفی ذہنیت اس نشہ کا منطقی نتیجہ ہے، سازش اور منصوبہ بندی اس کے آفٹر شاکس ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments