بہنوں سے خوف کھانے والا بے غیرت قبیلہ


\"ramish-fatima\" اوپن یونیورسٹی کا پچھلے سال کا سوالنامہ ہے پیشِ خدمت ہے۔مجھے یاد نہیں پڑتا اس پہ کوئی شور مچا ہو۔اس کی وجہ کیا تھی؟ بہت سوچنے پہ یہی سمجھ سکی کیونکہ بھائی کا ذکر تھا بہن کا نہیں تو ممتحن کے بھائی تک کیوں جائیں۔ اس سال یہی سوال ایک لفظ کی تبدیلی ساتھ سامنے آیا تو جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔میں رسول بخش بہرام کو نہیں جانتی، لیکن بہن کے حرمت کا مقدمہ لڑنے والوں کے جاں نثاروں نے جو گھٹیا کمنٹس ان کی بہن کیلئے لکھے ہیں ان کا اسکرین شاٹ لگانا میرے لیے ممکن نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک بہن کی حرمت صرف تب ہے جب وہ ہماری بہن ہو، کسی اور کی بہن کیلئے ہمارے دل میں اتنی ہی عزت ہے جتنی غلاظت ہم بک چکے ہیں۔

یہ وہی سوچ ہے جس کے ساتھ پنچائت کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ایک بندے نے کسی کی بیٹی یا بہن کے ساتھ زنا بالجبر کیا اب اس کا ازالہ یہ ہے کہ اس کے خاندان کی کسی عورت کے ساتھ متاثرہ فریق کے خاندان کا مرد زنا بالجبر کرے اور حساب برابر ہو جائے۔اس سارے مقدمے کا نتیجہ دو متاثرہ فریق ہیں جو بہن یا بیٹی تو ہیں مگر انسان نہیں، جن کے جسم خاندان بھر کی عزت و غیرت کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور پھر ایسے لوگوں کے فیصلے اور توانائی اسی عزت کو پامال کرنے کی خاطر کیے جاتے ہیں۔ یہ احساس کیسے جاگے کہ میری بیٹی کے ساتھ زیادتی ہوئی اس کا بدلہ سامنے والے کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کر کے نہیں لیا جا سکتا ، اور واقعی بھلا وہ انسان تھوڑی ہے وہ تو اس خاندان کی عزت ہے ۔

\"question-paper\"مردوں کی پنچائت میں ایسے فیصلوں کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ یہ پنچائت گجرانوالہ میں ہو، جتوئی میں یا سوشل میڈیا پر ہو، اس میں یہی ہوتا ہے جو ہم دیکھ چکے۔ اگر یہ روایت ہے تو ہم ایسی روایت سے دور بھلے ہمیں معاف رکھیں۔ اگر یہ جبر ہے تو کیا گجرانوالہ کی ماریہ سے رسول بخش بہرام کی بہن تک کا مجرم یہ معاشرہ ہے جو کسی کو بات کرنے کی، انسان کی عزت کا مقدمہ لڑنے کی تمیز نہیں سکھا سکا، یا پھر ہم پڑھنے لکھنے کے باوجود اس معاشرتی جبر سے آزاد نہیں ہو سکے کہ حرمت و انصاف کا تقاضا ہے کسی نے تیری بہن کا نام لیا تو تو اسکی بہن کے ساتھ اس سے بڑھ کے کچھ ایسا کر کہ اسے لگ پتہ جائے کس مرد کے بچے کے ساتھ پنگا لیا ہے۔

بہنوں کے ساتھ عزت و غیرت کو نتھی کرنے والے جب بہن کو انسان نہیں سمجھتے تو خواجہ سرا کو انسان کیسے سمجھیں گے؟جہاں عورت انسان کا درجہ نہیں پا سکی وہاں خواجہ سرا کو کیونکر انسان سمجھا جائے؟ وہ تو ویسے ہی ہمارے حساب سے نامکمل ہیں ان کیلئے بھلا کیوں تھکایا جائے خود کو؟ ان کے ساتھ چوک چوراہوں پہ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ کسی سامنے آنے والی ویڈیو میں کی بدمعاشی سے کسی طور کم نہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہم انسان کو انسان کا درجہ دینے سے کتراتے ہیں کیونکہ ہمیں اس کے حقوق تسلیم کرنے پڑتے ہیں اور یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments