برطانوی استعمار کے میر جعفر سے معاہدات


برطانوی نو آبادکاروں کے استعماری عہد کا ڈھانچہ نوآبادیاتی فلاسفی پر استوار ہوا، اس فلسفہ کی سماجی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے یورپی افضلیت کا تصور رائج کیا گیا، گویا یہ بیانیہ تشکیل پایا کہ مغربی لوگ ترقی یافتہ اور آزاد خیال ہیں، مسلمان شدت پسند اور سائنسی تخیل کے خلاف ہیں۔ ان تصورات کو اٹل حقیقت بنا کر پیش کرنے کے لیے نصاب کو بہ طور ڈھال استعمال کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے، جیمز مل سے برٹش انڈیا کی تاریخ لکھوائی گئی اور بعد ازاں کمپنی نے انھیں 1823 ء میں ملازمت دی بلکہ ان کے دونوں بیٹوں جان سٹارٹ اور جیمز بینتھم کو بھی کمپنی نے ملازم رکھ لیا۔ جیمز مل نے نو آبادکاروں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ہندستان کی سیاسی تاریخ پر کتاب لکھی اور ان کے بیٹے جان سٹارٹ مل نے نوآبادیاتی تعلیمی ڈھانچے کی بنیاد رکھنے کے لیے انگریزی زبان میں تعلیم کی حمایت میں کتابچہ تحریر کیا۔

ہندستان میں برطانوی نو آبادیاتی عہد کی تاریخ کے الم ناک چہروں کی ملمع کاری کی گئی چنانچہ برطانوی نو آباد کار جدت طراز کے روپ میں پیش کیے گئے، چنانچہ برٹش راج دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلا دور ایسٹ انڈیا کمپنی اور دوسرا دور سلطنت برطانیہ کے ماتحت۔ درحقیقت استعماریت کے سہولت کاروں نے دانستہ طور پر یہ تقسیم کی جس کا مقصد 1857 ء سے قبل ہندستان میں اقتصادی تباہ کاریوں اور وسائل کی لوٹ مار کمپنی کے کھاتے میں ڈال کر، برطانوی استعمار اپنے مداخلتی کردار سے علیحدگی چاہتا ہے وگرنہ تھامس رو برطانوی بادشاہ کے سفیر کی حیثیت سے جہانگیر کے دربار میں تجارتی پروانہ حاصل کرنے کے لئے چار سال تگ و دو کرتا رہا۔

جب برطانوی بادشاہ کو یہ اجازت نامہ مل گیا تو برطانوی پارلیمان نے ہندستان سے تجارت کی غرض سے، ایسٹ انڈیا کمپنی کو چارٹر دیا۔ برطانوی پارلیمان کے ممبرز کمپنی کے شیئر ہولڈرز بنے، کمپنی نے 1765 ء میں جب ہندستان میں دیوانی کے اختیارات حاصل کیے تو ہندستانی دولت برطانوی خزانے میں جمع کرانے کے لیے 1769 ء میں کمپنی نے پارلیمان کے ساتھ معاہدہ کیا گویا دیوانی کی مد میں حاصل کی جانے والی رقم سے چار لاکھ پاونڈز سالانہ برٹش خزانے میں کمپنی نے جمع کرانا شروع کیے۔

میر جعفر اور رابرٹ کلائیو

دیوانی کے اختیارات حاصل کرنے سے قبل، علی وردی خان کے انتقال ہوتے ہی، بائیس سالہ سراج الدولہ کو کمپنی کی ایماء پر تخت نشین کرایا گیا اور فروری 1757 ء میں بنگال، بہار اور اڑیسہ میں کمپنی نے معاہدے کے تحت ٹیکس چھوٹ اور سکہ جاری کرنے کا اختیار حاصل کر لیا۔ اس معاہدے پر میر جعفر خان بہادر نے بھی دستخط کیے، درحقیقت یہ معاہدہ کرانے میں میر جعفر کا کلیدی کردار تھا۔ اس کے بعد سراج الدولہ کی مہروں سے، بنگال، بہار اور اڑیسہ کے ماتحت منتظمین کو کمپنی سے ٹیکس وصول نہ کرنے کے پروانے جاری کیے گئے۔ سراج الدولہ کی تخت نشینی ہوتے ہی، اس کی نا اہلی، کم عقلی کی نشاندہی شاہ ولی اللہ نے اپنے مکتوب میں کر دی تھی اور پھر وہی ہوا۔

1757 ء میں جنگ پلاسی ہوئی، جرنیل میر جعفر نے اس دھرتی سے غداری کی اور تخت نشینی کی خاطر برطانوی استعماریت کی بنیاد رکھنے میں انگریز کا گماشتہ بنا، میر جعفر کی کوٹھی آج حرام کی ڈیوڑھی کے نام سے نشان عبرت ہے۔ آج کے دن ہی، 23 جون 1757 ء میں، جنگ پلاسی کے بعد میر جعفر کو غداری کا انعام دینے کے لیے تخت نشین کرایا گیا اور اس کے لیے کمپنی کے نمائندہ کرنل رابرٹ کلائیو نے ایک معاہدہ کیا۔ تیرہ نکات پر مشتمل یہ معاہدہ 15 رمضان المبارک 1757 ء میں کیا گیا۔ معاہدہ کی شقیں ملاحظہ کیجئے :

1۔ نواب سراج الدولہ منصور الملک شاہ قلی خان بہادر ہیبت جنگ کے ساتھ امن کے دنوں میں جو معاہدہ ہوا تھا، میں اس کی مکمل پاسداری کروں گا
2۔ انگریز کے دشمن میرے (میر جعفر) دشمن ہیں، خواہ وہ ہندوستانی ہوں یا یورپی۔

3۔ صوبہ بنگال، بہار اور اڑیسہ میں فرانسیسیوں سے وابستہ تمام اثاثہ جات اور کارخانے انگریزوں کے قبضے میں رہیں گے اور نہ ہی میں فرانسیسیوں کو اب کبھی بھی مذکورہ صوبوں میں آباد رہنے دوں گا۔

4۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کلکتہ پر نواب (سراج الدولہ) کے قبضے کے دوران اور لوٹ مار سے ہونے والے نقصانات، اور فورسز پر ہونے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے، میں (کمپنی کو) ایک کروڑ روپے (ہرجانہ) ادا کروں گا۔

5۔ کلکتہ میں انگریز باشندوں سے لوٹی گئی دولت کا نقصان پورا کرنے کے لیے، میں 50 لاکھ روپے ادا کرنے پر رضامند ہوں۔
6۔ ہندوؤں، مسلمانوں اور کلکتہ کے دیگر باشندوں سے لوٹی گئی دولت کا نقصان پورا کرنے کے لیے، میں 25 لاکھ روپے ادا کروں گا۔

7۔ کلکتہ کے آرمینیائی باشندوں سے لوٹی گئی دولت کے عوض، میں کمپنی کو 7 لاکھ روپے کی رقم دوں گا۔ کمپنی کو دی جانے والی رقم کی انگریزوں، ہندوؤں اور مسلمانوں میں تقسیم کا اختیار کرنل کلائیو اور کمپنی کی کونسل کے سپرد ہوگا، جسے کمپنی مناسب سمجھیں یہ رقم تقسیم کر دے۔

8۔ کلکتہ کی سرحدوں کے چار اطراف، کھائی کے اندر جو اراضی زمینداروں کی ملکیت ہے، اس کے علاوہ، کھائی والی زمین کے ارد گرد 100 گز زمین مستقل کمپنی کے نام کروں گا۔

9۔ کلکتہ کے جنوب میں، جہاں تک کلیپی ( کلکتہ بندر گاہ کے قریب کا علاقہ) واقع ہے، کی تمام اراضی کمپنی کے زمینداری سسٹم کے ماتحت ہوگی، اور ان علاقوں کے تمام افسران کمپنی کے دائرہ اختیار میں ہوں گے، کمپنی دیگر زمینداروں کی طرح مذکورہ افسران سے بھی محصولات لے گی۔

10۔ جب بھی میں (میر جعفر) کمپنی کی معاونت کا مطالبہ کروں تو میں کمپنی کی دیکھ بھال کا بھی ذمہ دار ہوں گا۔
11۔ میں دریائے گنگا کے قریب ہگلی کے نیچے کوئی نیا قلعہ تعمیر نہیں کروں گا۔
12۔ جیسے ہی میں تینوں صوبوں میں حکومت قائم کروں گا، مذکورہ بالا رقوم کو پوری ایمانداری سے ادا کیا جائے گا۔

اس معاہدے کے تحت، ایسٹ انڈیا کمپنی نے میر جعفر کو تخت پر بٹھانے کے لیے بنگال کے خزانے سے ایک کروڑ 70 لاکھ روپے وصول کیے صرف یہی نہیں بلکہ بنگال، بہار، اڑیسہ کے علاقوں میں محصولات جمع کرنے کا اختیار بھی حاصل کر لیا۔ اس معاہدے کے بعد، میر جعفر نے اپنے ماتحت علاقوں میں کمپنی کے گماشتوں کے لیے سند جاری کی پندرہ جولائی 1757 ء میں جاری کی گئی اس سند کا متن واضح کرتا ہے کہ کمپنی وسائل کی لوٹ مار اور مقامی تاجروں، صنعتوں کو تباہ کر رہی تھی ان گماشتوں کو یہ اختیار بھی مل گیا کہ وہ کسی بھی مقامی تاجر کا کاروبار بند کرانے کے مجاز ہوں گے، تین سال بعد میر جعفر کو تخت سے اتار کر میر قاسم کو 1760 ء میں تخت نشین کیا گیا، پھر 1762 ء میں دوبارہ میر جعفر کو تخت نشین کیا گیا، تخت نشینی بھی کمپنی کے لیے منافع بخش کاروبار بن گئی اس سے کمپنی نے پانچ کروڑ روپے پر مشتمل دولت ہندستانی خزانے سے حاصل کی۔

یورپ بالخصوص برطانیہ میں دولت کی اس فراوانی کے بعد، ایڈم سمتھ نے 1776 ء میں ویلتھ آف نیشنز کتاب لکھ کر اقتصادی ترقی کے نئے اصولوں پر پیدائش دولت سے لے کر تقسیم دولت کا طریقہ کار پیش کیا، برطانیہ میں لکھی گئی یہ کتاب یورپی سرمایہ داروں کے لیے بائبل کا درجہ اختیار کر گئی۔ بنگال کی دولت لوٹنے کے بعد، برطانیہ میں کمپنی کے شیئرز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا یوں برطانوی پارلیمان میں بیٹھے کمپنی کے شیئر ہولڈرز کی چاندی ہو گئی۔ 1700 ء میں ہندستان کا عالمی تجارت میں 24 اعشاریہ چار فیصد حصہ تھا اور برطانیہ کا حصہ محض 2 اعشاریہ آٹھ فیصد تھا، یہ تناسب ہندستان پر انگریز قبضے کے بعد 1870 ء میں کم ہو کر 12 اعشاریہ دو فیصد رہ گیا۔

برطانیہ میں دولت کی فراوانی ہونے کے بعد ہی، یورپی ایجادات اور صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔ ہندستان میں اپنی مداخلت کی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے، برطانوی پارلیمان نے گورنر جنرل کا عہدہ متعارف کرا دیا، 1773 ء میں گورنر جنرل کا یہ عہدہ کلکتہ کے لئے تشکیل دیا گیا جسے کمپنی کی بمبئی اور مدراس پریذیڈنسی پر فوقیت دی گئی، اس عہدے کی تنخواہ 25 ہزار پاونڈز مقرر کی گئی جس کی ادائیگی ہندستانی خزانے سے ہوتی، اس عہدے کے ساتھ برطانوی پارلیمان نے پانچ رکنی کونسل تشکیل دی اور اس کونسل کے تین ممبرز کی نامزدگی کا اختیار پارلیمان کے پاس رکھا گیا، جب 1858 ء میں ملکہ وکٹوریا نے آرڈیننس پاس کیا تو برطانوی پارلیمان ہندستان پر براہ راست مسلط کر دی گئی اور کمپنی کے تحت موجود تمام اثاثہ جات بھی برطانیہ نے اپنے قبضے میں لے لیے اور یہی گورنر جنرل کا عہدہ وائسرائے کے منصب سے تبدیل کر دیا گیا۔

تقسیم ہند کے بعد بھی یہ منصب مختلف صورتوں میں یہاں موجود ہیں، ان منصبوں کے ذریعے سے ہی جدید عہد کا استعمار مقامی افراد کے لئے میر جعفر والے کردار متعین کرتا ہے اور مابعد نوآبادیاتی سیاسی ڈھانچے کے تناظر میں ملک کی اقتصادیات کی شہ رگ کو استعمار اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ نوجوان نسل کو اس خطے کی سیاسی و اقتصادی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کر کے ایسے کرداروں کی نشاندہی کرنی چاہیے جو عہدوں کے لیے قوموں پر غلامی کا طوق مسلط کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments